’’سائنس آن ویلز‘‘سیریز کا دوسرا پروگرام اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ، چینی صدر کے ’’ہم نصیب معاشرے‘‘کے وژن کا عملی عکس
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
’’سائنس آن ویلز‘‘سیریز کا دوسرا پروگرام اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ، چینی صدر کے ’’ہم نصیب معاشرے‘‘کے وژن کا عملی عکس WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد :چائنا میڈیا گروپ اور پیج فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سے “سائنس آن ویلز” سیریز کا دوسرا تعلیمی و تفریحی پروگرام اسلام آباد ماڈل اسکول میں کامیابی سے منعقد کیا گیا۔یہ پروگرام پیج فاؤنڈیشن کی زیرِ تعلیم مستحق اور ضرورت مند بچیوں کے لیے مخصوص تھا، جس کا مقصد سائنسی شعور، تخلیقی صلاحیتوں اور ثقافتی آگاہی کو فروغ دینا ہے۔
پروگرام کی مہمانِ خصوصی، پیج فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فجر رابعہ پاشا نے چائنا میڈیا گروپ کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ سی جی ٹی این کا سائنسی تعلیم، تربیت اور مثبت تفریح کو یکجا کرنے کا یہ پروگرام قابلِ تحسین ہے۔ ایسے اقدامات بچوں میں سیکھنے کی دلچسپی پیدا کرتے ہیں اور انہیں مزید بہتر مواقع فراہم کرتے ہیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ماڈل اسکول کی پرنسپل ڈاکٹر نورالعین نے کہا کہ سائنس آن ویلز جیسے پروگرام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ بچوں کو سائنسی علوم سے روشناس کرانا صرف انفرادی ترقی نہیں بلکہ ایک بہتر تعلیمی معاشرے کی تشکیل کی جانب قدم ہے۔
پروگرام کے دوران بچوں کو سائنس پر مبنی معلوماتی ویڈیوز دکھائی گئیں، جن میں قدرتی مظاہر، ماحولیاتی مسائل اور جدید سائنسی ایجادات سے متعلق مواد شامل تھا۔کمسن طلبہ نے ان ویڈیوز میں بھرپور دلچسپی لی، جبکہ پینٹنگ مقابلے میں بچوں نے “موسمیاتی تبدیلی اور ماحول دوست طرزِ زندگی” جیسے اہم موضوعات پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔یہ تقریب چائنا میڈیا گروپ کی “سائنس آن ویلز” سیریز کا حصہ ہے، جس کے تحت سی ایم جی کی “کاروانِ علم وین” پاکستان کے مختلف اسکولوں اور فلاحی اداروں کا دورہ کر رہی ہے۔اس مہم کا مقصد سائنسی و تعلیمی مواد اُن بچوں تک پہنچانا ہے، جو وسائل کی کمی کے باعث معیاری تعلیمی مواقع سے محروم ہیں۔
یہ پروگرام چینی صدر شی جن پھنگ کے پیش کردہ “ہم نصیب معاشرے” کے تصور کی عملی تعبیر بھی ہے، جس کے تحت مختلف قومیں باہمی تعاون، علم کے تبادلے، اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر متحد ہو رہی ہیں ، اس نظریے کے مطابق تعلیم اور سائنسی ترقی صرف ایک ملک کی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ عالمی بہتری اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔چائنا میڈیا گروپ مستقبل میں بھی ایسے پروگرامز کے تسلسل کے لیے پُرعزم ہے، تاکہ تعلیم، سائنسی شعور اور تخلیقی تربیت کو فروغ دیا جا سکے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنواز شریف کی بیٹی ہوں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گی، مریم نواز نواز شریف کی بیٹی ہوں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گی، مریم نواز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی منظوری کے بعد ہراسمنٹ کمیٹی کا سربراہ تبدیل خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار خاتون ایس ایس پی تعینات خیبر پختونخوا، 1351انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلئے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے، وزیراعظم کا عرب اتحاد ہنگامی اجلاس سے خطاب کھیل میں سیاست کو گھسیٹنا اصل روح کے منافی ہے، محسن نقوی کا بھارتی رویے پر سخت ردعملCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سائنس ا ن ویلز اسلام ا باد سیریز کا
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔