کوئی بھی قوم صرف نعرے لگا کر ترقی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں، محنت کرنی پڑتی ہے اور ملک کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینی پڑتی ہے۔
آج ہمیں بھارت کی طرف سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اگر ہم عقل کے اندھے نہیں تو ہمیں اس سازش کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ مغربی ممالک بھارت کو آلہ کار بنا کر پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ملک اور قوم ان کے لیے ہمیشہ مسئلہ بنی رہی ہے۔
کبھی کسی جہاد میں سرگرم ہو جاتی ہے اور کبھی ایٹم بم تک بنا لیتی ہے۔ یہ تمام حرکتیں مغرب کی غالب دنیاکے لیے پریشان کن ہیں ۔ ہم نے ماضی میں جب سوویت یونین کا خاتمہ کیا تو اس کا خطرہ سب سے زیادہ مغربی ممالک نے محسوس کیا جو روس کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی تھے اور دیکھ رہے تھے کہ یہ قوم کس قدر ایمانی طاقت رکھتی ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے۔ بس اس کو صرف ایک مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔
زیادہ مدت نہیں گزری لیکن چونکہ ہماری یاداشت خاصی کمزور ہے ،ہندوستان میں کاروبار اور تجارت تو پاکستان بننے سے پہلے بھی چل رہی تھی لیکن ہم نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر یہ نیا ملک بنایا تھا ۔ قیام پاکستان کی تحریک اور جدو جہد میں کون سی قربانی تھی جو پیش نہیں کی گئی ۔’’لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘ کے نعرے پر ہم نے اپنا بہت کچھ قربان کر دیا اور کرتے چلے جارہے ہیں۔
بھارت سے جنگیں کیوں کی گئیں اور ہم اپنے تحفظ کے لیے اس قدر بے چین کیوں رہتے ہیں ،اس لیے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہمارا پڑوسی ہمیں ختم کر کے اپنے میں ضم کر لینا چاہتا ہے یعنی وہی صورتحال بنانا چاہتا ہے جو قیام پاکستان سے پہلے کی تھی۔۔ تازہ ترین مثال جعفر ایکسپریس ٹرین کے واقعہ کی ہے لیکن ہم میں شائد اتنی جرات نہیں تھی کہ اس کا ذمے دار بھارت کو ٹھہرا دیتے یا شائد ہمارے حکمران بھارت کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہیں یا خوفزدہ کہ اسے مورد الزام نہیں ٹھہراتے۔
بھارت تو اپنے ارادوں پر کوئی پردہ نہیں ڈالتا کیونکہ وہ ہماری کمزوری کی وجہ سے شیر بنا ہوا ہے اور اسے جیسے ہی موقع ملا ہے اس نے ایک خطرناک منصوبہ کے تحت خود ہی حملہ کرا کے دنیا بھر میں پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ۔ اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ پر کہا تھا کہ میں نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لیا ہے۔
مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اب ایک بار پھر تحریک پاکستان جنم لے رہی ہے اور تحریک کا یہ دور ویسے ہی حالات کا تقاضا ہے جو قیام پاکستان سے پہلے موجود تھے اور جس کی شدت نے ایک تحریک پیدا کی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس آج اس پائے کے لیڈر موجود ہیں، مجھے تو اپنی دنیا بدلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہم کسی آزمائش کی صورت میں روائتی جنگ تو شائد برداشت نہ کر سکیں لیکن غیر روائتی جنگ میں بھارت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
قوم کو یہ یاددہانی کراتے رہنا چاہیے کہ ایک ڈاکٹر قدیر خان بھی تھا جس کی مہربانی سے آج ایک عام پاکستانی بے فکر ہو چین کی نیند سوتا ہے اور وہ جب بھارتی جارحیت کی بات سنتا ہے تو بر ملاء کہتا ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی موجود ہے جو میرے حفاظت کے لیے کافی ہے۔ بھارت نے گو کہ اسلحے کے انبار لگا رکھے ہیں لیکن بھارت کو یہ خوب علم ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم نے بھارت سے کوئی جنگ نہیں ہاری۔ سقوط ڈھاکہ بھی ہماری غداری کا نتیجہ تھا ۔ آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں اس میںہمیں ایک نیا عزم اور نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی تاکہ ہم دشمن کے عزائم کو ناکام بنا سکیں۔ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگااور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
اگر ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو ہماری خودمختاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ہمیں اندرونی خلفشار سے نکل کر قومی یکجہتی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہمیں ہر اس شخص کو مسترد کرنا ہوگا جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر اپنی شناخت منوانا ہوگی اور دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں ۔ اگر ہم متحد ہو کر کام کریں گے تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہمیں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا۔ اگر ہم دشمن کے اندازے کو توڑ نہ سکیں، اس کا حوصلہ نہ پست کر دیں، اس کے عزائم کو ناکام نہ بنا دیں تو ہمارا جینا بیکار ہے۔ ہم نے طاقت کی طرف بڑھنا ہے۔
ہمیں علم ہے کہ بھارت کے ساتھ ہماری کشمکش کسی مصلحت یا صلح سے ختم نہیں ہو سکتی۔ بھارت ہمیں کمزور رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے ۔ ہمیں طاقت کی طرف بڑھنا ہے اوراپنی منزل کا تعین خود کرنا ہے۔دنیا میں طاقت کی عزت ہے اور کمزور کو کوئی نہیں پوچھتا۔ ہمیں بھارت کی دہشت گرد دشمنی سے خبردار اور کسی بھی خطرے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ہماری خارجہ پالیسی خودمختار ہونی چاہیے اور کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چاہتا ہے کے لیے کی طرف اگر ہم ہے اور
پڑھیں:
اس بار صرف چائے نہیں بسکٹ بھی کھلائیں گے! (آخری حصہ)
ایک پہلو یہ بھی ہے جو پاکستانیوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ کیا پاکستان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ مودی پاکستان کو ہلکا سمجھ کر ہر دفعہ حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے اور اپنی غلطیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا رہتا ہے پھر اس کے حملے کو روکنے کے لیے ہمیں صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ شاید فوجی اعتبار سے تو پاکستان کسی طور پر بھی کمزور نہیں ہے البتہ ملک میں نظریاتی خلفشار اور انتشار اتنا زیادہ ہے کہ دشمن ہمارے اختلافات اور انتشار سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ مودی بغیر کسی ثبوت کے ہر دہشت گرد حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا رہتا ہے مگر وہ خود کتنا بڑا دہشت گرد ہے، اس کی دہشت گردی کے چرچے تو کہاں نہیں ہیں۔ کینیڈا ہی کیا امریکا بھی اس کی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے جس کے ثبوت بھی پیش کیے جا چکے ہیں، کینیڈا میں اس نے سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجرکو خالصتان کی آواز بلند کرنے پر قتل کرایا اور امریکا میں وہ گرپتونت سنگھ پنّو کو قتل کرانا چاہتا تھا مگر وہ بچ گیا۔
کینیڈا کی حکومت نے بھارت کو اپنے شہری نجّر کا قاتل قرار دیا ہے اور اسے اس کی وضاحت کے لیے کہا ہے مگر بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جن دنوں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کے دورے پر آئے تھے گرپتوت سنگھ پنّو نے امریکی نائب صدر سے اپیل کی تھی کہ وہ مودی سے اس کے قتل کی سازش کے بارے میں پوچھ گچھ کریں اور اسے سکھوں کے مطالبات ماننے پر مجبور کریں۔مودی پنّو کے اسی بیان سے گھبرا کر وینس کو دہلی میں ہی چھوڑ کر سعودی عرب کے دورے پر بھاگ نکلا اور وینس کی موجودگی میں ہی پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے بھارت کو معصوم اور مظلوم بنانے کا ڈرامہ رچا ڈالا۔
مودی نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کا اعلان کر کے پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کا ثبوت پیش کردیا ہے۔ حالانکہ ایک کشمیری گروپ جو ’’دی ریزیڈنٹس فرنٹ‘‘ کہلاتا ہے پہلگام حملے کی ذمے داری قبول کر چکا ہے جب ہی کشمیر میں کئی مقامات پر کئی مکانوں کو دھماکوں سے گرایا گیا ہے، شاید یہ انھی لوگوں کے گھر ہوں گے جنھوں نے حملے کا اعتراف کیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسی کے گھر کو گرانا کھلی دہشت گردی ہے اور مودی حکومت ایسی دہشت گردی برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں کرتی آ رہی ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے جب پاکستان کشمیریوں پر ظلم کی بات کرتا ہے تو اسے دہشت گرد حملوں کا ذمے دار قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ یہ تمام دہشت گردی کے واقعات مودی سرکار کی اپنی دہشت گردی ہے مگر بدنام پاکستان کو کیا جاتا ہے۔
ریزیڈنٹس فرنٹ دراصل بھارت سرکار کو کئی دفعہ خبردارکرچکا ہے کہ وہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد ہونے کی دعوت نہ دے۔ مودی مقبوضہ جموں کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے وہ بھارت کے دوسرے حصوں سے لوگوں کو لا کر یہاں آباد کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے اب تک 35 لاکھ غیر کشمیریوں کو مستقل رہائش کے لیے اسناد جاری کی جا چکی ہیں۔ کشمیر ٹائمز جموں کشمیر کا ایک موقر روزنامہ ہے اس کی مدیرہ انو رادھا بھاسین نے اپنے اخبار کے ایک اداریے میں لکھا کہ پہلگام میں 26 سیاحوں کا قتل یقینا ایک ناقابل برداشت سفاکیت ہے۔
ان مارے جانے والے سیاحوں کی سیکیورٹی کی ذمے داری بھارتی حکومت پر عائد ہوتی ہے افسوس کہ اس سے اجتناب برتا گیا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وادی میں سیاحوں کی آمد میں یقینا اضافہ ہوا ہے مگر بدقسمتی سے مودی حکومت کشمیر میں سیاحت کو ایک سیاسی پراجیکٹ کے طور پر متعارف کرا رہی ہے۔ کشمیر میں نارمل حالات کا معیار یہاں بسنے والے عام شہریوں کی سوچ سے نہیں بلکہ سیاحوں کی آمدنی کو قرار دیا گیا ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ یہاں فلاں سال اتنے لاکھ اور اس کے بعد اس سے بھی زیادہ سیاح آئے اس سے جموں کشمیر کے باسیوں کو یہ تاثر ملا کہ انڈیا سے سیاح یہاں سیر کرنے نہیں بلکہ جیت کا جشن منانے آتے ہیں۔ جب سیاحوں کی آمد کو حکومت کی سیکیورٹی پالیسی کی کامیابی کا اشتہار بنا لیا گیا پھر آزادی سے محروم اور بھارتی ظلم سے متاثرہ کشمیریوں کا اس سے بھڑکنا قدرتی عمل ہے۔
چند سال کی خاموشی سے سیکیورٹی ادارے بھی سمجھنے لگے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور اب یہ واردات ہو گئی جو سراسر حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ بہرحال مودی نے پورے بھارت میں جنگی جنون پیدا کر دیا محض اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے، بہرحال پاکستان بھی یہاں تیار بیٹھا ہے ، اب اگر ابھی نندن یا اس جیسا کوئی پاکستانی سرحد میں گھسا تو اسے چائے کے ساتھ بسکٹ بھی ضرور کھلائیں گے۔