اب ایک بڑی تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں: سلمان اکرم راجہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
پی ٹی آئی کے رہنما و وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایک بڑی تحریک کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
راولپنڈی میں بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ایک بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، کارکن نکلتے ہیں اور اپنے ساتھ دیگر لوگوں کو بھی نکالتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم اب اس تحریک کی طرف جائیں گے کہ لوگ خود اپنے گھروں سے نکلیں گے، ہمیں کب تک روکیں گے؟ ایک دن لاوا پھٹ پڑتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو گورکھ پور ناکے پر پولیس نے روک لیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بیوقوف لوگ ہیں، جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، یہ پاکستان کے عوام کو للکار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ہم بات کر بیٹھے ہیں، جنوری میں 4 نشستیں حکومت کے ساتھ ہوئیں، ہمارا صرف ایک مطالبہ تھا کہ بانی سے ملاقات کرائی جائے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت نے ہم کو بتایا پوچھ کر بتائیں گے، اس بے بس حکومت سے ہم کیا بات کریں گے؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جان بوجھ کر کچھ لوگوں کو اندر بھیجا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو بانی کا بیانیہ باہر نہیں بتاتے، مگر ہمیں اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں، جب تک ہمیں رسائی نہیں دی جاتی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ رہے ہیں
پڑھیں:
اے سپہ سالارِ وطن! کیا آپ کو قوم کی بیٹی یاد ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمیں خبر ملی ہے کہ امریکا کی فصیلوں میں ایک دروازہ کھلا، اور اْس دروازے سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قافلہ داخل ہوا۔ وہی امریکا جس نے کبھی ہمارے وزیراعظم کے فون تک نہ اٹھائے، آج اس کا صدر آپ سے ملاقات کو اعزاز کہہ رہا ہے اور ہمیں خوشی ہوئی… بے حد خوشی۔
لیکن اے سردار! یہ خوشی تاریخ کی تھکن سے نکلی ہے اور اس کے پیچھے بہت سے سوال، خدشے، زخم اور امیدیں چھپی ہیں۔ ماضی کی گرد اْڑتی ہے… اور ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم نے وعدے سنے، وفاداری نبھائی، لیکن 1965 کی جنگ میں ہم تنہا تھے، 1971 میں ہمارا بازو کاٹ دیا گیا، افغان جہاد کے بعد ہمیں پْشیمانیوں کی دھول ملی، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے بچوں کی قبریں اور دنیا کی طعنہ زنی، پھر FATF آیا، ڈرون حملے ہوئے اور پریسلر کی چھری چلی۔
تو سوال ہے سردار… کیا یہ تاریخ دہرانے کا آغاز تو نہیں؟ کیا امریکا کی یہ گرم جوشی کسی نئے سرد طوفان کی تمہید تو نہیں؟ کیا بھارت کو تھپکی اور پاکستان کو تسلی… ایک پرانی چال تو نہیں؟ ہم جانتے ہیں آپ باخبر ہیں مگر قوم بھی باشعور ہو چکی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ امریکا کے پاس دوست نہیں، صرف مفادات ہوتے ہیں۔ قوم آپ پر فخر کرتی ہے کہ آپ نے میدان میں، دل میں، وردی میں، ہر جگہ قرآن، سنت اور وطن کی عزت کو ترجیح دی۔ مگر اے سپہ سالار! اک سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ شاہنواز فاروقی کا شعر ہے
’’نظام زیست کی حرمت بحال کرتے رہو
کوئی بھی بزم ہو اْٹھ کر سوال کرتے رہو‘‘
وہ اک سوال ہے… جو کہ بہت نازک… اور بہت پرانا۔ جب آپ نے ٹرمپ سے مصافحہ کیا تو کیا آپ کے دل میں ایک بیٹی کی قید کی کسک بھی جاگی؟ کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام، جو مشرف کی غلامانہ سوچ اور سرد مہری کی بھینٹ چڑھی، جسے 86 سال کی سزا ملی صرف اس لیے کہ وہ قرآن سے محبت کرتی تھی۔ کیا اس بیٹی کا ذکر، اس خاندان کا دکھ، اس قوم کا زخم… آپ کے الفاظ میں ڈھلا؟
اے محافظ وطن! قوم کی آنکھ نم ہے… امید زندہ ہے… قوم کو معلوم ہے کہ آپ وفا کے قائل ہیں، آپ کے سینے میں وہ دل دھڑکتا ہے جو سجدے میں جھکتا ہے، تو ہمیں امید ہے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے پہلی بار کسی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہو گی۔ لیکن اے سپہ سالار…
ہم پاکستانی صرف یقین سے مطمئن نہیں، ہمیں خبر بھی چاہیے، مرہم بھی، اور جواب بھی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وقت حکمت و جرأت کا ہے، اور قوم دعاگو ہے کہ آپ کا ہر قدم، ہر بات، ہر ملاقات، جذبہ جہاد، عزتِ ملت، اور غیرتِ قوم کا علم بردار ہو۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ یہ جو فتوحات ہم دیکھ رہے ہیں، یہ صرف توپ، ٹینک یا تعلق کی بدولت نہیں، یہ ایمان، تقویٰ، اور جہاد کے ثمرات ہیں۔ تو اس وقت ہمیں صرف جشن نہیں بلکہ بیداری، احتیاط اور توازن کی ضرورت ہے۔ اور آخر میں فقط ایک دعا: ’’اے اللہ! ہمیں ایسے رہنما دے جو دشمن سے ڈرے نہیں، اور دوست کو پہچانے، ہمیں ایسی حکمت دے جو غیرت کے ساتھ جڑی ہو، اور ایسی فتح دے جو صرف میدان میں نہیں، بلکہ قید خانوں، محروم دلوں، اور مظلوم بیٹیوں کے لیے ہو۔ آمین۔