بھارت نے پاکستان کے خلاف آپریشن کو ” آپریشن سندور” نام کیوں دیا؟ جانیے
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا جس دوران اپنے کئی طیارے بھی تباہ کروا بیٹھے ہیں ، اس آپریشن کو بھارت نے ” آپریشن سندور” کا نام دے رکھا تھا اور اب یہ نام دے جانے کی وجہ بھی سامنے آگئی۔
ہندوستان ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ’آپریشن سندور‘ کا نام اس سرخ سندور کا حوالہ ہے جو بہت سی ہندو خواتین اپنی شادی شدہ حیثیت کی نشاندہی کے لیے اپنے بالوں میں لگاتی ہیں، پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دوران کئی خواتین نے اپنے شوہروں کو کھو دیا تھا جنہیں ان کے سامنے مار دیا گیا”۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ’’آپریشن سندور‘‘ کا نام پہلگام قتل عام کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کو اس بات کی یقین دہانی کرانا ہے کہ ان کی قربانیوں کو یاد رکھا جائےگا۔
یادرہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے میں درجنوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا جبکہ بھارت کے اندر سے ہی اس حملے پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تھے ، کئی لوگوں نے اسے سیکیورٹی ناکامی قرار دیا تھا تو کسی نے بہار کا الیکشن جیتنے کے لیے مودی سرکار کا ہتھکنڈا قرار دیا تھا ، صحافی بھی یہ سوالات اٹھاتے دکھائی دیے تھے کہ ایک ایسا علاقہ جہاں جانے کے لیے ایک عام آدمی کی 10 جگہوں پر چیکنگ ہوتی ہے، شدت پسند کیسے اسلحہ سمیت حساس علاقے میں پہنچ کر واردات کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
کوئٹہ سے بذریعہ جعفر ایکسپریس ڈاک کی ترسیل کیوں معطل ہوئی؟
محکمہ ڈاک کی جانب سے بذریعہ جعفر ایکسپریس ڈاک اور سامان کی ترسیل معطل ہو گئی ہے، جس کے باعث نہ صرف کوئٹہ بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ڈاک کے نظام میں تاخیر اور تعطل پیدا ہو گیا ہے۔
محکمہ ڈاک طویل عرصے سے پاکستان ریلوے کے ذریعے مختلف شہروں کو ڈاک، پارسل، مالیاتی دستاویزات اور سرکاری مراسلات روانہ کرتا رہا ہے۔
تاہم حالیہ دنوں میں ریلوے انتظامیہ نے محکمہ ڈاک کا سامان لے جانے سے انکار کر دیا ہے، جس سے شہریوں اور کاروباری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جعفر ایکسپریس پر حملے میں امریکا کی جانب سے افغانستان کو دیا گیا اسلحہ استعمال ہونے کی تصدیق
ذرائع کے مطابق پاکستان پوسٹ اور ریلوے کے درمیان ایک معاہدے کے تحت محکمہ ڈاک ریلوے کو کروڑوں روپے سالانہ ادائیگی کرتا ہے تاکہ ڈاک اور دیگر سامان کو مختلف شہروں تک بذریعہ ٹرین بروقت پہنچایا جا سکے۔
تاہم محکمہ ریلوے کی جانب سے مسلسل تاخیر، سامان نہ اٹھانے اور انتظامی ہتھکنڈوں کے باعث محکمہ ڈاک کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
جعفر ایکسپریس، جو کوئٹہ سے راولپنڈی کے درمیان سروس ہے، محکمہ ڈاک کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔
کیونکہ اسی کے ذریعے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ڈاک اور پارسلز ملک کے دیگر حصوں میں پہنچائے جاتے تھے۔
تاہم گزشتہ چند ہفتوں سے جعفر ایکسپریس کے ذریعے ڈاک کی ترسیل معطل ہونے کے باعث کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ کی جلد نجکاری کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
محکمہ ڈاک کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ کی جانب سے کبھی ’گاڑی میں گنجائش نہ ہونے اور کبھی اسمگلنگ کے خدشات‘ جیسے بہانوں کے ذریعے ڈاک کا سامان لے جانے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق اس روش نے سرکاری اور نجی ڈاک کے پورے نظام کو متاثر کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں میں ڈاک کی ترسیل مکمل طور پر رک سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: قطر کے تعاون کے سبب بیرونی ممالک میں پھنسے 6 ہزار خطوط و پارسل پاکستان پہنچنا شروع
محکمہ ڈاک نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزارتِ مواصلات اور ریلوے حکام سے معاملے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
محکمہ ڈاک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے کے ساتھ موجود معاہدے کے مطابق محکمہ ڈاک ہر ماہ باقاعدگی سے تمام واجبات ادا کرتا ہے، لہٰذا ڈاک کی ترسیل میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر ناقابلِ قبول ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ریلوے انتظامیہ نے ڈاک کے سامان کو لے جانے سے انکار کیا ہو۔
مزید پڑھیں: اخروٹ اور بادام کہاں گئے؟ پاکستان پوسٹ کے ملازمین پر جرمانہ عائد
ماضی میں بھی کئی بار جعفر ایکسپریس اور دیگر ٹرینوں کے ذریعے ڈاک کی ترسیل اچانک معطل کی جا چکی ہے، جس سے محکمہ ڈاک کو لاکھوں روپے کا نقصان اور عوام کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
محکمہ ڈاک کے ملازمین کا کہنا ہے کہ جب بھی ٹرین سروس میں تعطل آتا ہے تو انہیں متبادل ذرائع، مثلاً نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں، کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو نہ صرف مہنگا ہے بلکہ وقت بھی زیادہ لیتا ہے۔
محکمہ ڈاک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے کے ساتھ معاہدے پر ازسرِ نو غور کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ نے عوامی سہولت کے لیے کیا بڑا فیصلہ کیا؟
اگر ریلوے انتظامیہ مسلسل تعاون سے انکار کرتی رہی تو محکمہ ڈاک کو متبادل ذرائع، مثلاً ہوائی کارگو یا نجی لاجسٹک کمپنیوں سے شراکت داری، پر غور کرنا ہوگا۔
دوسری جانب، محکمہ ریلوے کے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس میں ڈاک اور سامان کی ترسیل معمول کے مطابق جاری ہے۔
ریلوے کے نظام کے تحت روزانہ ہزاروں من سامان مختلف شہروں کے درمیان منتقل کیا جاتا ہے، جس میں سے بیشتر قانونی اور تجارتی اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پوسٹ کی ہائی پروفائل دفاتر میں خطوط بھیجنے سے پہلے جانچ پڑتال کی ہدایت
البتہ بعض عناصر اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی یا اسمگل شدہ سامان بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریلوے انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس عمل کی روک تھام کے لیے سیکیورٹی اقدامات میں بہتری لائی جا رہی ہے۔
حکام نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ریلوے کی خدمات استعمال کرتے وقت قانونی تقاضوں کی پاسداری کریں تاکہ نظام کو شفاف اور محفوظ بنایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
عوامی حلقوں نے وزیرِ ریلوے اور وزیرِ مواصلات سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کریں تاکہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں ڈاک کا نظام معمول پر آ سکے۔
محکمہ ڈاک کے ذرائع کے مطابق، ڈاک صرف خطوط اور پارسلز تک محدود نہیں بلکہ اس کے ذریعے سرکاری خطوط، عدالتی نوٹسز، شناختی کارڈز، پاسپورٹس، مالی دستاویزات اور دیگر اہم سرکاری امور انجام پاتے ہیں، اس لیے اس نظام میں کسی بھی تاخیر کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پارسلز ترسیل ٹرانسپورٹ جعفر ایکسپریس خطوط ڈاک ریلوے حکام شناختی کارڈز لاجسٹک معطل وزارت مواصلات