ترک صدر کا وزیر اعظم سے ٹیلیفونک رابطہ,بھارتی جارحیت پر ترکیہ پاکستان کے ساتھ
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اہم ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان اور آزاد کشمیر پر میزائل حملوں کے بعد مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ ترکیہ نے پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی اور کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے حالیہ علاقائی صورت حال، پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور 6 مئی کی شب ہونے والے دہشت گرد حملے سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ترک صدارتی ڈائریکٹوریٹ آف کمیونیکیشنز کے مطابق صدر اردوان نے حملے میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے لیے دلی تعزیت اور مغفرت کی دعا کی، جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ ترک ایوانِ صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر اردوان نے پاکستان کی پرامن اور تحمل پر مبنی پالیسیوں کو سراہا اور یقین دلایا کہ ترکی موجودہ بحران میں پاکستان کے ساتھ ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف سے گفتگو میں ترک صدر نے 22 اپریل کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے حملے کی غیر جانبدار تحقیقات کی پاکستانی تجویز کو مناسب قرار دیا۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ صدر اردوان نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی خطے میں کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، اور ان کے سفارتی رابطے جاری رہیں گے۔ اس سے قبل ترکی نے بھارت کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائی کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مکمل جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
سید عباس عراقچی کی کینیڈین وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک گفتگو
انیتا آنند سے اپنی ایک ٹیلیفونک گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تمام حکومتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ حالیہ جارحیت کو رکوائیں اور اسرائیل کو اس قانون شکنی پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے سزا دلوائیں۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ شب اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سیدعباس عراقچی" اور ان کی کنیڈین ہم منصب "انیتا آنند" کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ جس میں ایران کے خلاف مسلسل صیہونی جارحیت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران سید عباس عراقچی نے اسرائیلی حملوں میں سائنس دانوں، دانشوروں و عسکری شخصیات سمیت نہتے شہریوں بالخصوص بچوں کی شہادتوں اور سول انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام حکومتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ حالیہ جارحیت کو رکوائیں اور اسرائیل کو اس قانون شکنی پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے سزا دلوائیں۔
سید عباس عراقچی نے صیہونی رژیم کی جانب سے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ جارحانہ اقدام، ایران کے جوہری معاملات پر ہونے والی بات چیت کے درمیان کیا گیا جو تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اسرائیل کی جارحیت کے اثرات کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک سے اپنی سفارتی مشاورتوں کا ذکر کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ موجودہ تنازعے میں امریکہ کی شمولیت اور حمایت ایک بڑی غلطی ہے، جس سے پورے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے باہر بھی جنگ پھیل سکتی ہے۔ دوسری جانب انیتا آنند نے خطے میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو صرف سفارتی زریعے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس میں وہ تعاون کے لیے تیار ہیں۔