علی امین گنڈا پور کا اڈیالہ جیل کی جانب پیدل مارچ، پولیس سے تلخ کلامی
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے آج راولپنڈی میں اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف سے ملاقات کے لیے جیل کی جانب پیدل مارچ شروع کیا تاہم پولیس نے انہیں گورکھپور ناکہ پر روک دیا، جس کے باعث موقع پر شدید تلخ کلامی دیکھنے میں آئی۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور نے پولیس اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، "تم میرا راستہ نہیں روک سکتے، میرے پاس عدالت کا حکم موجود ہے۔ میں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہوں اور مجھے جیل جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔"
بھارتی جارحیت سے شہریوں کی شہادت؛ سپریم کورٹ کے تمام ججز کا ایک رسمی تعزیتی اجلاس منعقد
گورکھپور ناکے پر ان کے سکیورٹی پروٹوکول کو بھی روکا گیا، جس پر وزیر اعلیٰ کے سکیورٹی آفیسر سب انسپکٹر سلیم قریشی نے پولیس سے مذاکرات کیے اور مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول کو آگے جانے کی اجازت دی جائے۔
کچھ دیر بعد علی امین گنڈا پور پیدل ہی جیل کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ ناکہ عبور کرنے کے بعد پی ٹی آئی رہنما ایک پبلک سروس سوزوکی میں سوار ہو کر جیل کی جانب روانہ ہوئے۔
ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہسپتالوں میں انتظامات مکمل
اڈیالہ جیل میں آج بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا دن مقرر تھا، جس کے باعث تحریک انصاف کے اہم رہنما، بشمول صوبائی وزیر سہیل آفریدی، شاہد خٹک، محسن جتوئی، ذوالفقار خان نوشہرہ، فتح اللہ برکی، معظم جتوئی اور ایم این اے جمال احسن، بھی گورکھپور ناکے پر پہنچے اور بعد ازاں جیل کی جانب روانہ ہوئے۔
حساس صورتحال کے پیش نظر علاقے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور اڈیالہ جیل کے اطراف پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
آزاد کشمیر کے پہاڑ’پاک فوج زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: علی امین گنڈا پور جیل کی جانب اڈیالہ جیل وزیر اعلی
پڑھیں:
غزہ: موت اور بھوک سے بے وسیلہ لوگوں کا پیدل فرار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) غزہ شہر پر اسرائیل کے بڑھتے حملوں کے پیش نظر ہزاروں فلسطینی خاندان شمالی علاقوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں جنہیں بدترین انسانی حالات اور نقل و حمل کے ذرائع کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے مطابق شمال سے جنوب کی جانب سفر پر 3,000 امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے اخراجات ہوتے ہیں جس کے باعث بہت سے لوگوں کے لیے گاڑیوں پر جانا ممکن نہیں رہا اور وہ یہ طویل فاصلہ پیدل طے کر رہے ہیں۔
اس سفر کے لیے دستیاب واحد راستے شاہرہ الراشد پر لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ بعض لوگ اپنا سازوسامان چھکڑوں پر لاد کر جا رہے ہیں جبکہ طویل فاصلہ طے کرنے والی تھکی ماندہ خواتین اور بچے راستے میں جا بجا سستاتے نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ ایک ماہ کے دوران غزہ شہر سے ڈھائی لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے اور گزشتہ 72 گھنٹوں میں ہی 60 ہزار افراد نے انخلا کیا۔
لوگوں کے ہجوم میں چھڑی کے سہارے سست روی سے چلتے معمر شخص ابو نادر سیام نے بتایا کہ وہ غزہ شہر کے علاقے تل الہوا سے آ رہے ہیں جہاں کوئی گھر یا محلہ ایسا نہیں جو بمباری میں تباہ نہ ہوا ہو۔ علاقے میں حملے جاری ہیں اور پمفلٹ گرا کر شہریوں کو انخلا کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چھ گھنٹے پیدل چلتے رہے ہیں کیونکہ انہیں کوئی گاڑی نہیں ملی۔
ان کی اہلیہ، ذکیہ سیام بھی ان کے ساتھ ہیں جو شدید تھکن کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ نقل مکانی کر کے شجاعیہ کے علاقے میں گئے اور پھر وہاں سے بے گھر ہو کر الشعف چلے گئے، جس پر بعد میں بمباری ہوئی۔ اس کے بعد وہ غزہ شہر کے مغرب میں سمندر کے کنارے چلے آئے جہاں انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ دو راتیں خیمے کے بغیر گزاریں اور پھر جنوب کی جانب پیدل سفر شروع کر دیا۔
جنوبی غزہ کی جانب نقل مکانی کرنے والی ام شادی الاشقر نے بتایا کہ غزہ شہر میں موت کا راج ہے جہاں ہر طرف بمباری اور تباہی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ لوگوں کو انخلا کے احکامات دینے کے لیے پمفلٹ گرائے گئے ہیں لیکن بمباری نہ ہو رہی ہوتی تو کوئی بھی غزہ شہر کو نہ چھوڑتا اور سب اپنے گھروں میں ہی رہتے۔
شمالی غزہ سے جنوب کی جانب سفر کرنے والے ایمن الخطیب نے بتایا کہ وہ جنگ میں اپنے خاندان کے 25 افراد کو کھو چکے ہیں جن میں زیادہ تر جبالیہ کیمپ کے محلے تل الزعتر میں مارے گئے۔
وہ خود چند زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کے ساتھ فرار ہوئے۔جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کی پھوپھی نے ان کا بازو مضبوطی سے تھام رکھا تھا، جیسے انہیں کھو دینے کا خوف ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بمباری کے دوران فرار ہوئے اور راستے میں انہیں کوئی گاڑی نہیں ملی۔ ایک گاڑی میں بیٹھنے کے لیے ان سے 2000 شیکل مانگے گئے لیکن ان پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ اب ان کے پاس نہ تو خیمہ ہے اور نہ ہی پناہ کا کوئی اور سامان، انہوں نے مدد کے لیے کئی لوگوں کو فون کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
'انروا' کے مطابق، جنوبی غزہ میں جبری نقل مکانی کی اوسط لاگت فی خاندان 3,180 امریکی ڈالر بنتی ہے۔
غزہ میں ایندھن کی شدید قلت ہے، اور اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث سات مہینوں سے پناہ کا کوئی سامان علاقے میں نہیں آیا۔ گزشتہ ماہ، اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرے گا جہاں حالیہ ہفتوں میں بلند و بالا رہائشی عمارتوں پر بمباری میں تیزی آئی ہے اور لوگ ایک مرتبہ پھر ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں جہاں سے وہ چند ماہ قبل ہی واپس آئے تھے۔