پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل آزادی مارچ کیس میں بری
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے آزادی مارچ سے متعلق درج مقدمات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما زرتاج گل کو دونوں کیسز سے بری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن چشتی نے سنایا، جنہوں نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ زرتاج گل کے خلاف مقدمات میں شواہد ناکافی ہیں لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مقدمے میں شامل دیگر ملزمان کے کیس کی سماعت کو 27 مئی تک ملتوی کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل و دیگر کے خلاف تھانہ بارہ کہو میں 2 مقدمات درج ہیں اور ان مقدمات میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر اہم رہنما پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: زرتاج گل
پڑھیں:
معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
گلگت:سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔
اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔
غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔
غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔