جنگ ختم نہیں ہوئی ، چوکنا رہنا ہو گا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سابق سفیر عبدالباسط نے پاکستان کو بھارت سے چوکنا رہنے کا مشورہ دے دیا اور کہا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں عبدالباسط نے کہا کہ بھارتی حکومت پر اپوزیشن اور عوام کا دباؤ ہے کہ جنگ بندی پر آمادہ کیوں ہوئے؟ اپوزیشن اور عوام نریندر مودی سے پوچھ رہے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر کسی تیسرے کی ثالثی میں بات چیت کس کی اجازت سے کی جارہی ہے؟
سابق سفیر نے یہ بھی کہا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، بھارت بڑا مکار اور جھوٹا دشمن ہے، پاکستان کو چوکنا رہنا ہو گا۔
بھارتی اپوزیشن میدان میں آ گئی ، مودی سرکار سےبڑا مطا لبہ کر دیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔
اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔
اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔
اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا، اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔
بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔
پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔
ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔
بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔