عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کی قیادت میں پاکستان زندہ باد ریلی
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے کہا کہ خطے میں امن کیلئے نکلے ہیں، پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا کرارا جواب دیا، پہلے کہہ دیا تھا کہ مودی انسان کا بچہ نہیں بنے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مشہور آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو جنگی جارحیت پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں کمیونٹیز محفوظ نہیں ہیں۔ بھارت کے خلاف جنگ میں کامیابی پر کراچی میں ریلی کا انعقاد کیا گیا اور سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے پاکستان زندہ باد ریلی کی قیادت کی۔ کلفٹن کے ساحل سی ویو پر منعقدہ ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جہاں شاہد خان افریدی نے شرکاء سے خطاب کیا۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ خطے میں امن کیلئے نکلے ہیں، پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا کرارا جواب دیا، پہلے کہہ دیا تھا کہ مودی انسان کا بچہ نہیں بنے گا۔ سابق کپتان نے کہا کہ بھارت میں کمیونٹیز محفوظ نہیں ہیں، لڑائی میں پاکستان نے بچوں کو نہیں مارا، جبکہ بھارت نے معصوم بچے شہید کیے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، بھارت نے دوبارہ میلی آنکھ سے دیکھا تو برا حال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کواب اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان سے الجھنا مہنگا پڑگیا، بھارت کا میڈیا 50 فیصد بالی ووڈ اور 50 فیصد کارٹون نیٹ ورک ہے اورنریندر مودی کے جنگی جنون نے بھارت کو بند گلی میں دھکیل دیا یے۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ بغیر ثبوت کے پہلگام واقعے کا الزام ہم پر لگایا گیا، حملہ کیا ہے تو اب نتائج بھگتو، نریندر مودی پاکستان سمیت پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے، کینیڈا میں سکھوں پر حملہ کیا وہاں منہ کی کھانا پڑی۔ سابق کپتان نے کہا کہ اپنے شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں، ہمارا ملک بے مثال ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شاہد آفریدی سابق کپتان نے کہا کہ نے بھارت کہ بھارت
پڑھیں:
ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251110-03-4
بھارت آج نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور نفرت کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو چکا ہے جس سے واپسی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ مودی سرکار کی ’’ہندوتوا‘‘ پالیسی نے بھارت کے سیکولر آئین، جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو عملاً پامال کر دیا ہے۔ ایک قوم، ایک مذہب‘‘ کا یہ نعرہ درحقیقت بھارت کے اندر ایک مخصوص طبقے، ہندو بالادست گروہ کی حکمرانی قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس کے نتیجے میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مختلف ہندو مذہبی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر، عسکری اداروں کے مذہبی انتہا پسند گروہوں سے تعلقات، اور سیاسی قیادت کی خاموش تائید نے اس حقیقت کو مزید آشکار کر دیا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی بن چکا ہے۔ مختلف بیانات اور ویڈیوز میں دیکھی جانے والی کھلی دھمکیاں، جن میں اسلام کو دنیا سے ’’مٹانے‘‘ یا مسلمانوں کو ’’جڑ سے اکھاڑنے‘‘ کی باتیں کی گئیں، نہ صرف بھارتی سماج کے تانے بانے کو چاک کر رہی ہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات دراصل اسی ہندوتوا فلسفے کی بنیاد ہیں۔ آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار اور گولوالکر نے بیسویں صدی کے آغاز میں جو فکری بیج بویا، وہ آج مکمل درخت بن چکا ہے۔ ان کے نزدیک بھارت ’’ہندو راشٹر‘‘ ہے، جہاں دیگر مذاہب صرف اسی وقت برداشت کیے جا سکتے ہیں جب وہ ہندو تہذیب کے تابع ہو کر رہیں۔ نریندر مودی، جو خود آر ایس ایس کے تربیت یافتہ کارکن ہیں، اسی نظریے کو عملی شکل دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے اقدامات، چاہے وہ آرٹیکل 370 کی منسوخی ہو، این آر سی اور سی اے اے جیسے امتیازی قوانین کا نفاذ، یا مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر پالیسی، سب اسی سوچ کے مظاہر ہیں۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جو خود کو ’’ہندو یووا واہنی‘‘ کے بانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، کھلے عام سناتن دھرم کے غلبے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست میں مذہب اور ریاست کے درمیان لکیر مکمل طور پر مٹ چکی ہے۔ یہی وہ خطرناک رجحان ہے جس کے سبب بھارت میں نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ مذہبی اقلیتیں بھی نشانے پر ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے مودی کا دور ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔ گجرات 2002ء کے فسادات سے لے کر حالیہ دہلی اور منی پور کے واقعات تک، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ گائے کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل، حجاب پر پابندی، مساجد کی بے حرمتی، اور مسلمانوں کے مکانات و کاروباروں کو بلڈوز کرنا، یہ سب ریاستی سرپرستی میں ہونے والے اقدامات ہیں۔ مودی حکومت کے دور میں بھارتی میڈیا کا کردار بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ بیش تر ٹی وی چینل اور اخبارات حکومت کے پروپیگنڈا مشین کا حصہ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلانا، انہیں ’’دہشت گرد‘‘ یا ’’ملک دشمن‘‘ کے القابات دینا عام بات بن چکی ہے۔ ایسے میں عوامی شعور کو مسخ کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے خلاف مزید مشتعل ہو۔ یہی صورتحال تعلیمی اداروں میں بھی نظر آتی ہے۔ نصاب میں تاریخی حقائق کو مسخ کر کے ہندو راشٹر کے تصور کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی علمی، ثقافتی اور تاریخی خدمات کو یا تو حذف کیا جا رہا ہے یا منفی رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جمہوری ریاست میں عدلیہ، میڈیا اور پولیس وہ ستون ہوتے ہیں جو ظلم و زیادتی کے خلاف عوام کا تحفظ کرتے ہیں۔ لیکن بھارت میں یہ تمام ادارے ہندوتوا کے اثر میں آ چکے ہیں۔ جب مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں تو پولیس تماشائی بن جاتی ہے۔ مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے مظلوموں پر مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ عدالتیں اکثر ایسے مقدمات میں برسوں خاموش رہتی ہیں یا فیصلہ حکومت کے حق میں دیتی ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کے چمپئن قرار دیتے ہیں، بھارت کے مظالم پر خاموش ہیں۔ اس کی بڑی وجہ معاشی مفادات اور بھارت کی منڈی کی کشش ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سب مودی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے نام پر انسانی حقوق کے اصولوں کو قربان کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، مگر کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہن اغلط نہ ہوگا کہ ہندوتوا کی آگ صرف بھارت کے اندر تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے شعلے خطے کے امن کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی دانشور، طلبہ، اور سول سوسائٹی کے کئی حلقے اس انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں، یا انہیں ’’غدار‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے کر جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ ’’نئے بھارت‘‘ کے نام پر نفرت، تشدد اور تعصب کو قومی شناخت بنا دیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ظلم و جبر کو ریاستی پالیسی بنا لیا، اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نریندر مودی اور ان کے انتہا پسند ساتھی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کو دباکر بھارت کو مضبوط کر لیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ظلم وقتی طور پر طاقتور نظر آتا ہے، مگر اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔