جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی کیونکہ اس سے بے پناہ مصائب، وسیع پیمانے پر تباہی اور بے شمار معصوم جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

حال ہی میں جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں حالیہ حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر رہی، پھر وہیں غزہ اسرائیل تنازعہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے جو آج تک کشیدگی اور تشدد کا سبب بنا ہوا ہے جس میں بے شمار جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور کئی افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

اسی طرح روس یوکرین جنگ بھی جاری ہے جس کا آغاز 2022 میں ہوا، جو 21ویں صدی کے سب سے اہم جغرافیائی سیاسی بحرانوں میں سے ایک بن چکی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی، جانی نقصان اور بین الاقوامی تعلقات میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔

چونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں تنازعات تیزی سے جنم لے رہے ہیں جس کے باعث جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ آخری بار اس طرح کے ہتھیار دوسری جنگ عظیم کے دوران استعمال کیے گئے تھے، جب امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے جس کے باعث تباہی ناقابل تصور تھی اور پورا شہر ملبے کا ثھیر بن گیا تھا۔

جنگ کے بعد جب ان بم دھماکوں کی مکمل رپورٹس سامنے آئیں تو دنیا حیران رہ گئی۔ سب سے چونکا دینے والے نتائج میں یہ انکشاف ہوا کہ بمباری کے نتیجے میں تقریباً تمام اقسام کو ختم کر دیا تھا، تاہم کاکروچ زندہ رہنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

دوسری جنگ عظیم (WW2) کی رپورٹ واقعی حیران کن تھی۔ جب ایٹمی حملے نے پورے شہر کو تباہ کردیا تھا لیکن کاکروچ کیسے زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے؟ اس حیران کن واقعہ نے سائنسدانوں میں دلچسپی پیدا کر دی، جس سے وہ تحقیق کرنے لگے۔ جس کے بعد انہوں نے دلچسپ حقائق دریافت کیے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، سائنسدانوں نے لال بیگوں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج شائع کیے ہیں جن سے پتہ چلا کہ ان کی جسمانی ساخت انہیں ریڈی ایشن کے شدید اثرات برداشت کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔

نیوز ایجنسی اے بی پی (ABP) کی رپورٹ کے مطابق، یہی غیر معمولی خصوصیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کے بعد بھی زیادہ تر لال بیگ زندہ بچ گئے تھے۔ صرف وہی لال بیگ ہلاک ہوئے جو دھماکے کی شدید گرمی اور توانائی کے براہِ راست اثر کی زد میں آئے۔

تحقیق کے مطابق، لال بیگ 10 ہزار تک کی ریڈی ایشن برداشت کر سکتے ہیں، جبکہ انسانوں کے لیے تقریباً 800 ریڈ کی مقدار ہی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ جاپان پر ہونے والے ایٹمی حملوں میں جاری کی جانے والی گاما رے کی شدت تقریباً 10,300 ریڈ ریکارڈ کی گئی تھی، جو انسانی موت کے لیے کافی تھی۔ تاہم، کاکروچز کے جسموں نے ان مہلک شعاعوں کو بھی برداشت کر لیا تھا۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے بعد

پڑھیں:

غزہ پر دنیا کا سامنا کرنے سے گھبراہٹ، اسرائیل سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کریگا

اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے ڈینی ڈینان نے سکیورٹی کونسل کے صدر کے نام خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیلی وفد سکیورٹی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔" اسلام ٹائمز۔ غزہ کے معاملے پر دنیا کے سامنے شرمندگی اٹھانے سے گریز کے طور پر اسرائیل اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کی جائے گی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے ڈینی ڈینان نے سکیورٹی کونسل کے صدر کے نام خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیلی وفد سکیورٹی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔"

خط میں بہانہ گھڑتے ہوئے کہا گیا کہ نئے یہودی سال کے آغاز کی وجہ سے اسرائیلی وفد کی شرکت کا امکان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل نے غزہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے حساس اجلاس میں شرکت کے حوالے سے اسرائیلی نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بڑے زمینی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، ان حملوں کا مقصد غزہ شہر کے شمال سے فلسطینیوں کو جنوب کی جانب دھکیلنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی برادری ثابت کرے کہ بین الاقوامی قانون محض افسانہ نہیں، یمنی صدر
  •   عالمی میری ٹائم برادری کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد:نیول چیف
  • دنیا کے سامنے بلوچستان کی حقیقت مسخ کی جاتی ہے‘ سرفراز بگٹی
  • غزہ امدادی فلوٹیلا پر ڈرون حملے، دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں
  • برین ڈرین—- یا —- برین گین
  • غزہ میں فوری جنگ بندی اوریرغمالیوں کی رہائی ہونی چاہیے:انتونیو گوتریس
  • غزہ پر دنیا کا سامنا کرنے سے گھبراہٹ، اسرائیل سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت نہیں کریگا
  • ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا افراتفری کی دنیا یا امن کا راستہ؟  سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
  • ورجینیا میں دنیا کے سب سے بڑے آڑو کا نیا عالمی ریکارڈ قائم
  • فلسطین،دو ریاستی حل کے لیے ممکنہ راہیں