پاکستان اور بھارت میں اچانک جنگ بندی کیسے ہوئی؟ سی این این نئی تفصیلات سامنے لے آیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
واشنگٹن: پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں کے بعد سب سے شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں چار دن تک لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور بارود سے بھرے ڈرونز کا استعمال ہوا۔ تاہم یہ کشیدگی اتنی ہی اچانک ختم ہو گئی جتنی غیر متوقع طریقے سے شروع ہوئی تھی۔
امریکی ٹی وی سی این این کے مطابق نئی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح فون کالز اور سفارتی رابطوں کی ایک تیز مہم نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو جنگ بندی پر آمادہ کیا۔ دونوں ممالک کی طرف سے کچھ نکات پر مؤقف مختلف ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ بریک تھرو ہفتہ کی سہ پہر شروع ہوا۔
بھارتی فوج کے مطابق ہفتے کے روز جب اعلیٰ حکام پاکستانی حملوں کا جواب دینے کی تیاری کر رہے تھے اسی دوران انہیں پاکستانی ہم منصب کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا۔ بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی کے مطابق دوپہر 3:35 بجے ہونے والی کال میں جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ گھئی نے بتایا کہ اس کے بعد مزید بات چیت میں جنگ بندی کو مستقل بنانے کے طریقہ کار پر غور کیا جائے گا۔
پاکستانی فوج نے اس رابطے کی تصدیق کی لیکن بتایا کہ اس نے براہ راست رابطے کی بجائے تیسرے فریق کے ذریعے جنگ بندی کے لیے کوشش کی۔ ایک پاکستانی سفارتی ذریعے نے سی این این کو بتایا کہ امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر ہفتے کے روز امریکی حکام کے رابطے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ امریکہ نے دونوں ممالک کے درمیان مکمل اور فوری جنگ بندی کرائی ہے۔ ٹرمپ نے بھارتی اور پاکستانی قیادت کو “عقل مندی اور دانشمندی” کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد دی۔ اسلام آباد نے امریکی کردار کو سراہا جبکہ نئی دہلی نے اسے نظرانداز کیا اور دعویٰ کیا کہ جنگ بندی براہ راست رابطے سے طے پائی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق بھارت نے 8 اور 9 مئی کے بعد جنگ بندی کی درخواست کی تھی، لیکن پاکستان نے اس وقت جواب دینے سے گریز کیا۔ بعد میں پاکستانی جوابی کارروائی کے بعد بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے بھارت کو جواب دیا گیا۔ دونوں ممالک کے حملوں نے امریکہ، چین اور سعودی عرب کو فوری طور پر سفارتی کردار ادا کرنے پر مجبور کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے دونوں ممالک کے سیاسی و عسکری رہنماؤں سے رابطہ کیا تاکہ معاملہ بگڑنے سے پہلے روکا جا سکے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بھی الگ الگ بات چیت کی اور جنگ بندی کی حمایت کا اظہار کیا۔ ہفتے کی شام امریکہ کی ثالثی کے بعد دونوں ممالک نے اچانک جنگ بندی کی تصدیق کر دی۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنگ بندی براہ راست رابطے سے طے پائی، جبکہ پاکستان نے امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی قیادت کے کردار کو سراہا اور صدر ٹرمپ کی “فعال قیادت” پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
سی این این کے مطابق بھارت اور پاکستان کی متضاد کہانیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ عالمی دباؤ اور خاص طور پر امریکی کوششوں نے دونوں ممالک کو مہلک تصادم سے بچا لیا۔ جنگ بندی ابھی تک قائم ہے، اگرچہ دونوں فریق ایک دوسرے پر معمولی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان کیخلاف سمندر سے شرپسندی ہوئی تو نتائج کا ذمہ دار بھارت ہوگا‘ جنرل زبیر محمود
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) میری ٹائم سینٹر آف ایکسیلینس (MCE) کے زیرِ اہتمام ’’بحرِ ہند کے خطے میں سٹریٹیجک صف بندی: ایک سال بعد بدلتے رجحانات کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر دوسری کانفرنس پاکستان نیوی وار کالج، لاہور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں بحرِ ہند کے بدلتے سٹریٹیجک منظرنامے، بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی، ابھرتی ٹیکنالوجی کے اثرات اور پاکستان کی لچکدار حکمتِ عملیوں پر غور کیا گیا۔سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات (ریٹائرڈ) نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان کے خلاف سمندر کی سمت سے کوئی شرپسندی یا جارحیت کی گئی یا اس کی منصوبہ بندی ہوئی تو اس کے نتائج کی ذمہ داری براہِ راست بھارت کے کندھوں پر ہوگی۔ اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان کا ردِعمل فوری، غیر متوقع اور مؤثر ہوگا۔ سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے بحرِ ہند میں ابھرتے ہوئے سمندری چیلنجز پر بات کرتے ہوئے سفارتی بصیرت، علاقائی تعاون اور کثیرالجہتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔قبل ازیں، صدر MCE اور کمانڈنٹ پاکستان نیوی وار کالج ریئر ایڈمرل سہیل احمد عزمی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور بحرِ ہند کے خطے کی سٹریٹیجک اہمیت، اور بین الاقوامی تنازعات کے تناظر میں موجودہ چیلنجز پر روشنی ڈالی۔دیگر مقررین میں مشیر نیشنل کمانڈ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل خالد احمد کدوائی (ریٹائرڈ) سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری‘ وائس ایڈمرل خان حشام بن صدیق (ریٹائرڈ) ‘وائس ایڈمرل احمد سعید (ریٹائرڈ) ایئر مارشل جاوید احمد (ریٹائرڈ)‘ ڈاکٹر سلمہ ملک‘ ریئر ایڈمرل فیصل علی شاہ (ریٹائرڈ) اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ بریگیڈیئر ڈاکٹر نعیم سالک (ریٹائرڈ) شامل تھے۔