UrduPoint:
2025-06-27@02:12:39 GMT
پاکستان اور بھارت کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 مئی2025ء) پاکستان اور بھارت کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق۔ تفصیلات کے مطابق پیر کے روز پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن پر بات چیت کا پہلا راؤنڈ مکمل ہوگیا۔ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان سیز فائرکا اگلا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے رابطہ ہوا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کی بات چیت میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں افواج کے درمیان کوئی فائرنگ نہیں ہوگی، شہری آبادیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، پاکستان اور بھارتی افواج کی جانب سے ڈرونز کے ذریعے کوئی دراندازی نہیں کی جائے گی۔ دوسری جانب وزیر دفاع کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان گزشتہ دو سے تین دہائیوں سے دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ان اہم مسائل پر بامعنی مذاکرات کئے جائیں۔(جاری ہے)
مذاکرات میں تین میجر پوائنٹس ہیں کشمیر، دہشت گردی اور پانی یہ تین ایسے معاملات ہیں جو پچھلے 76 سال سے ان کی تاریخ ہے۔ ان تینوں معاملات پر بحث ہونی چاہیے۔پاکستان میں دہشتگردی گزشتہ 20 یا 30 سال سے ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر بات کرکے ایک اور پیشرفت کی ہے۔اس لئے کشمیر کا معاملہ بھی زیر بحث آنا چاہیے۔پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے اور کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ دہشت گردی کے شکار ملک پر الزام لگا کر حملہ کیا جائے۔دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ ہے اور اس کا حل اجتماعی سوچ اور تعاون میں ہے۔ جو ملک دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے اس پر الزام لگاکر حملہ کیا جائے یہ ستم ظریفی ہے۔ پانی کا مسئلہ 1960 کے معاہدے میں سیٹل ہے اسے معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف کامزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تقریباً ساری جنگیں ہی کشمیر پر لڑی گئی ہیں۔ پرسوں والی جنگ بھی کشمیر کا مسئلہ تھا۔ مودی نے خطے کو جہنم میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ افواج پاکستان بھارت کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کشمیر کو مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی حمایت کی ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کو بات چیت سے حل کیا جائے تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔ ہم نے جس طرح منہ توڑ جواب دیا وہ زخم سہلا رہے ہیں، ان کی پارلیمنٹ میں مودی کو برا بھلا کہا جارہا ہے یہ اس بات کی علامت ہے، ان کا میڈیا اور فوجی بریفنگ میں اس کی جھلک نظر آرہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے تحمل اور فوجی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔پاکستان کو پچھلے 77 سال میں اتنی بڑی کامیابی کبھی نہیں ملی۔ یہ ہماری ڈپلومیٹک فتح بھی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بھارت کے
پڑھیں:
وزیراعظم کا سعودی سفیرفون ، امن و استحکام کیلئے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعاون جاری رکھنے پراتفاق
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جون2025ء)وزیراعظم محمد شہباز شریف نیقطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام متعلقہ فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔پیر کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر اعظم نے سعودی عرب کے سفیرنواف بن سعید المالکی سے ٹیلیفونک گفتگو کی، یہ رابطہ حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی، خاص طور پر قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کی اطلاعات کے بعد کیا گیا۔(جاری ہے)
ٹیلیفونک گفتگو کے دوران وزیر اعظم نے اس سنگین پیش رفت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ تمام متعلقہ فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔وزیر اعظم نے اس موقع پر یقین دہانی کروائی کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو مزید مؤثر بنانے کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں استحکام لانے کیلئے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے اس اہم موقع پر رابطہ کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کو مل کر کام کرتے رہنا چاہیے تاکہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کا جلد پرامن حل نکالا جا سکے۔دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ باہمی تعاون اور قریبی رابطہ ہی خطے میں دیرپا امن کے قیام کی ضمانت دے سکتا ہے۔