صدر مملکت اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات، آئینی ترامیم پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کے بلاول ہاؤس میں صدر مملکت آصف زرداری سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اہم ملاقات کی، اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری بھی موجود تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق تفصیلی مشاورت کی گئی، بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کے عمل کو قومی اتفاقِ رائے سے آگے بڑھانے کی خواہاں ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وفاقی حکومت کو آئینی ترامیم کی منظوری سے قبل تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ پارلیمانی عمل میں یکجہتی قائم رہے، ملاقات میں یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ اگر ضرورت پڑی تو مجوزہ ترامیم پر مزید مشاورت کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے سیاسی ہم آہنگی اور جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور طے کیا کہ مشاورت کا عمل آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پیپلز پارٹی آرٹیکل 243 میں ترمیم کی حمایت کرے گی: بلاول بھٹو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں آئینی عدالتوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، جبکہ پارٹی آرٹیکل 243 میں ترمیم کی حمایت کرے گی۔
اسلام آباد میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاقِ جمہوریت کے دیگر نکات پر بھی عملدرآمد ضروری ہے، “ہم نے پہلے این ایف سی ایوارڈ دیا، پھر اٹھارویں ترمیم لائے، اب مزید آئینی اصلاحات کا وقت ہے۔”
ذرائع کے مطابق سی ای سی اجلاس کے دوران ججز کی تقرری اور تبادلے سے متعلق حکومتی تجویز پر پیپلز پارٹی رہنماؤں کی آراء تقسیم نظر آئیں۔ کئی اراکین نے مؤقف اپنایا کہ ججز کی ٹرانسفر کا اختیار حکومت کے بجائے جوڈیشل کمیشن کے پاس رہنا چاہیے۔
اجلاس میں یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ اگر عدلیہ کمزور ہوگی تو اس کا نقصان بالآخر سیاستدانوں اور جمہوری نظام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا کہ مجوزہ آئینی ترامیم پر مزید مشاورت کے بعد حتمی مؤقف پیش کیا جائے گا۔