"پاکستانی چینی ہتھیار چینیوں سے بھی بہتر استعمال کرتے ہیں، ان کو لڑنا آتا ہے" بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
اسلام آباد (ویب ڈیسک) معقولہ مشہور ہے کہ تعریف وہ جو دشمن کرے، ایسا ہی کچھ پاکستان کی مسلح افواج کیساتھ ہوا جن کی صلاحیتوں کا اعتراف بھارت کے ریٹائرڈ جنرل بھی کررہے ہیں۔
دونوں ممالک کےد رمیان سیز فائر کے بعد نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شنکر کا کہنا تھاکہ جنگ دو طرفہ ہوتی ہے، آپ ان لوگوں سے دراصل لڑے ہیں جو چینی ہتھیار وں کو چینیوں سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ "ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے اور کہاں خامیاں ہیں، ہمیں معلوم ہے، لیکن کچھ چیز بہت زیادہ اہم ہے ، جنگ دوطرفہ ہوتی ہے، تم اصل میں چینی ہتھیاروں کے خلاف لڑے ہو، ان لوگوں کے ساتھ جو چینی ہتھیاروں کو چینی لوگوں سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں، یہ ایسی چیز ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے "۔
ایک شخص نے 20 برس کے دوران خود کو 200 سانپوں سے کیوں ڈسوایا؟
⚠️Listen carefully to this ????????Indian retired General He says that "Pakistan knows how to use Chinese weapons better than the Chinese"
China doesn't have real life battle experience but Pakistan has#IndiaPakistanWar #ceasefire#indianarmy #PakistanArmy#viral #PAF #PAFResponds pic.
انہوں نے مزید یہ بھی دعویٰ کیا کہ " چینیوں کو یہ معلوم نہیں کہ لڑائی میں اسے کیسے استعمال کریں، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستانی اور چینیوں کے درمیان میں ہمیشہ پاکستانیوں کی بجائے چینیوں کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دوں گا، پاکستانی لڑائی میں اچھے ہیں، اب بھی دیکھیں تو وہ لڑائی میں اچھے ہیں"۔
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
اے آئی کے بڑھتے استعمال سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں: سام آلٹمین کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سام آلٹمین نے خبردار کیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں دنیا بھر میں بڑی تعداد میں افراد ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سام آلٹمین نے انکشاف کیا کہ وہ اکثر اے آئی کے اثرات کے بارے میں سوچ کر بے خوابی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ اوپن اے آئی کی قیادت کرتے ہوئے وہ اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا بوجھ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
سام آلٹمین نے بتایا کہ میری سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ اے آئی ماڈلز کے چھوٹے چھوٹے فیصلے حقیقی دنیا میں غیر معمولی اثرات پیدا کر سکتے ہیں، جو بعض اوقات بڑے فیصلوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نہ صرف روزگار بلکہ انسانی زندگی کے معمولات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی، پروگرامرز اور ڈویلپرز بھی مستقبل میں اے آئی کے باعث اپنی نوکریوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ سب سے پہلے کسٹمر سروس سے وابستہ ملازمتیں متاثر ہوں گی، کیونکہ اس شعبے میں زیادہ تر افراد کمپیوٹر یا فون کے ذریعے فرائض انجام دیتے ہیں، اور یہ کام ایک اے آئی ماڈل بھی مؤثر طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔
تاہم، اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو نے واضح کیا کہ وہ شعبے جہاں انسانی تعلق، ہمدردی اور جذباتی وابستگی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مثلاً نرسنگ، ان پر اے آئی کے اثرات محدود رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے تحقیقی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر ہر 75 برس بعد 50 فیصد ملازمتوں میں تبدیلی آتی ہے، مگر اے آئی کی آمد نے اس عمل کو تیز تر کر دیا ہے اور اب افرادی قوت کو اس تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے بہت کم وقت ملے گا، یہ وہ نکتہ ہے جو مجھے سب سے زیادہ فکرمند کرتا ہے۔