کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا دل کا اسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
فوٹو فائل
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے کراچی کے علاقے لانڈھی میں زیر تعمیر 'ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز کا بتایا جسے دنیا کا سب سے بڑا دل کا اسپتال قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز (ایس آئی سی وی ڈی) کی کارکردگی اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، سیکریٹری صحت ریحان بلوچ، سیکریٹری وزیراعلیٰ زمان ناریجو اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس آئی سی وی ڈی پروفیسر جاوید سیال سمیت دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ نےایس آئی سی وی ڈی کو عوامی صحت کا مثالی ماڈل قرار دیا اور کہا کہ اس ادارے میں دل کے ہنگامی علاج، پیچیدہ سرجریوں اور بچوں کو امراض قلب کی تمام خدمات مکمل طور پر مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔
یہ عظیم منصوبہ 1,200 بستروں پر مشتمل ہوگا جس میں 5 جدید آپریٹنگ تھیٹرز، 4 کیتھ لیبز، 1 ہائبرڈ لیب، جدید سی ٹی اور ایم آر آئی سہولیات، بچوں کے امراض قلب کا جامع علاج، ایک تحقیقی مرکز اور نرسنگ اسکول شامل ہوں گے۔ یہ منصوبہ پاکستان کو امراضِ قلب کے علاج اور طبی تحقیق میں خطے کا رہنما بنانے کی جانب ایک انقلابی قدم ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو ایس آئی سی وی ڈی کے آئندہ توسیعی منصوبوں پر بریفنگ دی گئی جن میں ٹنڈو محمد خان اور حیدرآباد میں اہم ترقیاتی کام شامل ہیں۔
ٹنڈو محمد خان میں ایس آئی سی وی ڈی کی نئی سہولت جلد افتتاح کےلیے تیار ہے جس میں ایک اضافی آپریشن تھیٹر، بچوں کے لیے خصوصی انتہائی نگہداشت یونٹ (پی آئی سی یو) سرجیکل آئی سی یو اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سینٹرل اسٹرل سروسز ڈپارٹمنٹ (سی ایس ایس ڈی) شامل ہوں گے۔ یہ سہولیات علاقے میں جراحی کی صلاحیت اور خصوصی نگہداشت کو نمایاں طور پر بہتر بنائیں گی۔
حالیہ افتتاح شدہ سہولیات میں ایک نیا آٹھ بستروں پر مشتمل ٹریاژ یونٹ شامل ہے جو نازک حال مریضوں کی فوری جانچ کے لیے مخصوص ہے جبکہ ایک 19 بستروں والا ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ بھی فعال کر دیا گیا ہے جو پیچیدہ امراضِ قلب کی ہنگامی صورتحال سے فوری اور مؤثر انداز میں نمٹنے کےلیے مکمل طور پر لیس ہے۔ یہ اقدامات حکومت کی صحت تک خصوصاً پسماندہ علاقوں کے لیے مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے عزم کا مظہر ہیں۔
وزیراعلیٰ کو ادارے کے طویل المدتی وژن کے تحت گراؤنڈ پلس سات منزلہ عمارت کی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا جس میں 300 بستروں پر مشتمل ان پیشنٹ سہولیات، بچوں کے دل کی جدید نگہداشت، مزید آپریٹنگ تھیٹرز اور کیتھ لیبز، سی ٹی اور ایم آر آئی کی جدید سہولیات شامل ہوں گی۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے تعمیراتی کام کی تیز رفتار تکمیل، معیار کو یقینی بنانے اور مریضوں کو مرکزِ نگاہ رکھنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت دی کہ مانیٹرنگ کے نظام کو مضبوط کیا جائے تاکہ ہر اخراجات کا مؤثر اور قابلِ پیمائش نتیجہ سامنے آئے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ایس آئی سی وی ڈی
پڑھیں:
پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) نے جگر کے 1000 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے خود کو دنیا کے بڑے ٹرانسپلانٹ مراکز کی صف میں شامل کر لیا ہے، یہ کامیابی پاکستان کے شعبہ صحت کیلیے اہم سنگ میل ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 2017 میں موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ادارے کا خواب دیکھا اور سنگ بنیاد رکھا، جہاں عوام کو جگر اور گردے کے امراض کا عالمی معیاری علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
شہباز شریف کا 9 سال قبل دیکھا گیا خواب آج حقیقت بن گیا جہاں ہزاروں مریضوں کا اعلیٰ معیاری علاج کر کے زندگیاں بچائی جا چکی ہیں۔
ترجمان پی کے ایل آئی کے مطابق اب تک جگر کے 1000 ٹرانسپلانٹس کے ساتھ ساتھ 1100 گردے اور 14 بون میرو ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 40 لاکھ سے زائد مریض علاج کی سہولیات سے مستفید ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت تقریباً 80 فیصد مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
’استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے علاج کے اخراجات تقریباً 60 لاکھ روپے ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔‘
ترجمان نے بتایا کہ بدقسمتی سے پی کے ایل آئی کو تحریک انصاف کی سابق حکومت کے دور میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور فنڈز منجمد کیے گئے جبکہ انتظامیہ کو غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا اور عالمی معیار کے ٹرانسپلانٹ سینٹر کو کووڈ اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے باعث 2019 میں صرف چار جگر کے ٹرانسپلانٹ ممکن ہو سکے۔
تاہم، 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ادارے کو بحال کیا گیا، فنڈز فراہم کیے گئے اور پی کے ایل آئی کو اپنے اصل مقصد کی جانب دوبارہ گامزن کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد کامیاب جگر کے ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک جگر کے ٹرانسپلانٹ پر اوسطاً 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر خرچ آتا ہے، جب کہ ماضی میں سالانہ 500 کے قریب پاکستانی مریض علاج کے لیے بھارت جاتے تھے اور نہ صرف بھاری اخراجات برداشت کرتے بلکہ غیر انسانی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔
پی کے ایل آئی نے ان تمام مشکلات کا خاتمہ کر دیا ہے، علاج کے دروازے ملک کے اندر کھول دیے ہیں اور اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا ہے۔ ادارہ اب صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں بلکہ یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجریز کے شعبے بھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔
ترجمان نے کہا ہک وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سرپرستی اور مسلسل تعاون سے پی کے ایل آئی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور یہ ادارہ اب محض ایک اسپتال نہیں بلکہ قومی وقار، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔
وزیراعظم کا سنگ میل عبور کرنے پر اظہار تشکر
وزیراعظم شہباز شریف نے اظہار تشکر کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے جو پودا 2017 میں لگایا تھا وہ آج تناور درخت بن گیا جس سے اب تک 40 لاکھ مریض مستفید ہو چکے، ماضی میں پی کے ایل آئی کو تباہ کرنے کی مزموم سازشیں ہوتی رہیں، اسکے بورڈ آف گورنرز کو ختم کیا گیا اور ادارے کو غیر فعال کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں خادم پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی تو پی کے ایل آئی کی ازسر نو بحالی پر کام شروع کیا، وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز نے موجودہ دور حکومت میں انسانیت کی خدمت کیلئے قائم اس ادارے کو اپنی بھرپور استعداد پر دوبارہ لانے کیلئے بھرپور محنت کی، جو قابل ستائش ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی کے ایل آئی 80 فیصد مریضوں کا علاج مفت کرتا ہے جس سے غریب عوام بین الاقوامی معیار کی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، پی کے ایل آئی کے قیام اور اس کے آپریشنز کو ازسر نو شروع کرکے دوبارہ سے اپنی بھرپور استعداد پر لانے کیلئے محنت کرنے والی ٹیم لائق تحسین ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت اور زندگیاں بچانے میں پی کے ایل آئی نے جو کردار ادا کیا یے، اس کے لئے ڈاکٹر سعید اختر اور انکی پوری ٹیم خراج تحسین کی مستحق ہے۔