عمران خان کا لاہور کی تفتیشی ٹیم کے ساتھ شامل تفتیش ہونے سے دوسرے دن بھی انکار
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
راولپنڈی:
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور کی تفتیشی ٹیم کے ساتھ شامل تفتیش ہونے سے دوسرے دن بھی انکار کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈی ایس پی جاوید آصف کی سربراہی میں آنے والی 13 رکنی ٹیم نے عمران خان کے تین ٹیسٹ پولی گرافک، فوٹو گرامیٹک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیے جانے تھے۔
عمران خان نے ٹیسٹ نہ کرانے کا تفتیشی ٹیم کو اپنا موقف تحریری شکل میں بھجوایا اور لکھا کہ ان ٹیسٹ کے ذریعے پراسیکیوشن مجھے پھنسانا چاہتی ہے، میرے آٹھ مقدمات میں ضمانتیں عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہیں۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم ٹیسٹ نہیں کروائے گا تو تفتیش کیسے مکمل ہوسکتی ہے؟ ان ٹیسٹوں کے مکمل ہونے سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ یہ تمام شواہد درست ہیں یا نہیں،ٹیسٹ نہ ہوئے تو تفتیش کا عمل کیسے اگے بڑھے گا۔
یہ پڑھیں : تفتیشی ٹیم کی اڈیالہ جیل آمد؛ عمران خان نے پولی گرافک ٹیسٹ کرانے سے انکار کردیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان سے تفتیش اور ٹیسٹ کے لیے لاہور پولیس کی 13 رکنی ٹیم دو دن سے راولپنڈی میں موجود ہے، تفتیشی ٹیم نے نومئی کے لاہور کے 11 مقدمات کے حوالے سے تفتیش کرنی تھی۔
تفتیشی افسران میں انسپکٹرز محمد عالم، ممتاز حسین، تصدق حسین، رانا محمد ارحم، زاہد سلیم، محمد فیاض، محمد نوید، رانا محمد اکمل، محمد سلیم سندھو شامل ہیں جب کہ فارنزک ٹیم کے تکنیکی ماہرین میں عابد ایوب، وقاص خالد قریشی، عثمان احمد خالد شامل ہیں۔
عمران خان کے انکار کے بعد تفتیشی ٹیم اڈیالہ جیل سے واپس روانہ ہوگئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تفتیشی ٹیم
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔