سری لنکا میں نمک کا بحران شدت اختیار کر گیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
جنوبی ایشیا میں سمندر سے گھرے ملک سری لنکا میں نمک کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ شہری دُگنی قیمت سے زیادہ میں نمک خریدنے پر مجبور ہوگئے۔
سری لنکا (بحر ہند میں موجود جزیرہ) کو اس وقت شدید بارشوں کے باعث نمک کی قلت کا سامنا ہے۔
قلت کی وجہ سے سری لنکن شہری معمول کی قیمت سے دُگنی سے زیادہ قیمت پر نمک خریدنے پر مجبور ہیں۔ نمک کا ایک کلو گرام کا پیکٹ اس وقت 412 سے 469 پاکستانی روپے کے درمیان فروخت کیا جا رہا ہے۔
سری لنکن شہری مارکیٹوں میں نمک کے خالی شیلف کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں اور نمک کی تلاش کے متعلق بتا رہے ہیں۔
ڈیلی مرر کی ایڈیٹر جمیلہ حسین نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ نمک کی شدید قلت ہے۔ سپر مارکیٹوں میں نمک کے شیلف خالی ہو رہے ہیں۔
There is a severe shortage of salt.
Supermarket shelves are running out of salt and consumers are getting frustrated! — Jamila Husain (@Jamz5251) May 21, 2025
ایک اور صارف نے ٹویٹ میں لکھا کہ کئی دنوں کی تلاش کے بعد بالآخر نمک بورالیسگووما (شہر) سے مل گیا۔
Had to hunt for salt for the past few days and finally found salt in Boralasgamuwa
Another day in Sri Lanka
Wonder if we cant get rid of the shortages with AI pic.twitter.com/binvq170aA
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی میزبانی میں پیر کے روز غزہ کی تازہ صورتحال اور جنگ بندی کے مستقبل پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوگا، جس میں متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔
ترک سفارتی ذرائع کے مطابق یہ اجلاس انہی ممالک کے وزرائے خارجہ کا تسلسل ہے جنہوں نے 23 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، استنبول میں ہونے والے اجلاس میں 10 اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور غزہ میں انسانی بحران پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ہاکان فیدان اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تراشنے کی کوششوں کی مذمت کریں گے اور اس بات پر زور دیں گے کہ عالمی برادری کو تل ابیب کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط اور مؤثر موقف اختیار کرنا ہوگا۔
ترک وزیر خارجہ اس بات پر بھی زور دیں گے کہ مسلم ممالک کو مشترکہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے مربوط کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ یہ بھی واضح کریں گے کہ غزہ میں پہنچنے والی انسانی امداد ناکافی ہے اور اسرائیل اپنی انسانی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ہاکان فیدان اس بات کو بھی اجاگر کریں گے کہ غزہ میں مسلسل اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی انسانی اور قانونی تقاضہ ہے، لہٰذا اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جانا چاہیے تاکہ امدادی سامان کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اجلاس میں فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کی سلامتی اور انتظامی امور کی ذمہ داری دینے کے حوالے سے عملی اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا، تاکہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا تحفظ ہو اور دو ریاستی حل کے وژن کو تقویت ملے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر آئندہ کے اقدامات کے لیے بھی مشاورت اور قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کریں گے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔