کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرائی جائے گی، وزیر بلدیات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
کراچی:
وزیر بلدیات سندھ نے کہا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونیوالی پوری عمارت گرا دی جائے گی۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر بلدیات سعید غنی نے اعلان کیا ہے کہ اب صرف غیر قانونی فلورز نہیں بلکہ پوری کی پوری غیر قانونی عمارت گرائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی طرف سے ایسی کارروائیاں شروع کی جا چکی ہیں، اور اب تک 2200 سے زائد غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان میں سے کئی کارروائیاں ایس بی سی اے افسران نے خود موقع پر جا کر کی ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی عبدالباسط کی طرف سے ایس بی سی اے میں کرپشن اور رشوت خوری کے الزامات پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد خود کبھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے رشوت دی ہے، تاہم حکومت نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کارروائیاں کی ہیں۔ اب تک 28 افسران کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے، جبکہ 31 کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور بعض کے خلاف باقاعدہ مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں۔
وزیر بلدیات نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ان کے معیار پر پوری نہیں اتر رہیں اور ایس بی سی اے کے پاس تمام غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اب اخبارات میں اشتہار دے کر نجی شعبے کو بھی ان کارروائیوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلدیاتی وزیر نے کہا کہ غیر قانونی پراپرٹی کی خرید و فروخت میں ملوث رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اور ان کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے ایجنٹس کو خبردار کیا کہ وہ ایسی پراپرٹی عوام کو نہ دکھائیں جو قواعد کے خلاف ہو۔
ایوان میں سوالات کے دوران جمال احمد نے پوچھا کہ جب غیر قانونی بلڈنگ تعمیر ہو رہی ہوتی ہے تو ایس بی سی اے کہاں ہوتا ہے؟ اس پر سعید غنی نے جواب دیا کہ یہ مسئلہ گزشتہ 17 برس سے چلا آ رہا ہے اور ایم کیو ایم بھی اس دوران حکومت میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تمام ضلعی انتظامیہ اور ٹی ایم سیز کو بھی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا جا رہا ہے، تاکہ یہ مسئلہ نچلی سطح پر بھی حل ہو۔
بلقیس مختار کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر وزیر بلدیات نے بتایا کہ 12 افسران کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسے تمام عناصر کو نکال باہر کرنا ہوگا جو شہر کی بربادی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب غیر قانونی تعمیرات پر پانی، بجلی اور گیس کے کنکشن بھی نہیں دیے جائیں گے۔
محمد فاروق اور دیگر اراکین نے پانی کی قلت، ٹینکر مافیا اور شہری خدمات میں بدعنوانی کے حوالے سے سوالات اٹھائے، جن پر وزیر بلدیات نے کہا کہ حکومت اس سمت میں کام کر رہی ہے، آن لائن شکایات کا نظام موجود ہے اور متعدد شہری اس سے فائدہ بھی اٹھا چکے ہیں۔
پانی کے مسئلے پر سعید غنی نے تسلیم کیا کہ موجودہ وسائل شہریوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں لیکن حکومت نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے تاکہ فراہمی بہتر بنائی جا سکے۔
ایم کیو ایم کی فوزیہ حمید نے ملازمتوں کے حوالے سے نوجوانوں کے لیے عمر کی حد میں نرمی کی تجویز دی، جس پر وزیر پارلیمانی امور ضیا النجار نے کہا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور حکومت اس پر غور کرے گی۔
قرعت العین کی طرف سے نکاسی آب کے مسائل پر توجہ دلانے پر سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی میں نالوں کی صفائی کے لیے خطیر رقم دی ہے اور آئندہ جون میں 45 بڑے نالوں کی صفائی کی جائے گی۔ انہوں نے پلاسٹک بیگز کو نالوں کے بند ہونے کی بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
مجموعی طور پر وقفہ سوالات کے دوران کراچی میں غیر قانونی تعمیرات، شہری سہولیات کی عدم فراہمی، بدعنوانی اور نوجوانوں کے روزگار جیسے اہم مسائل پر بحث ہوئی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان غیر قانونی تعمیرات ایس بی سی اے وزیر بلدیات کی طرف سے نے کہا کہ انہوں نے کے خلاف جائے گی ایم کی ہے اور کیا کہ کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں، متعلقہ اداروں کا اظہارِ لاعلمی
کراچی میں ایک سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ متعلقہ اداروں نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سولجر بازار میں طالبات کے سرکاری اسکول کی سیل کی جانے والی عمارت کو ٹاؤن ناظم کی کاوشوں سے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے اور سولجر بازار تھانے کی جانب سے سیل کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ مافیا کی جانب سے اسکول کو سیل کیا گیا تھا۔
عمارت پر قبضے کے لیے اس سے قبل بھی حملے کیے جاچکے ہیں۔ جمشید ٹاؤن کے علاقے سولجر بازار نمبر تین میں واقع جفلرسٹ گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول کی عمارت کو جمعہ کی شب 8 بجے اچانک مخدوش قرار دیتے ہوئے سیل کردیا گیا اور اسکول کے ہرگیٹ پر ایس بی سی اے کا نوٹیفکشن بھی چسپاں کر دیا گیا۔
ہفتے کی صبح جب طالبات اور اساتذہ اور طالبات اسکول پہنچے تو گیٹ پر تالے دیکھ کر حیران رہ گئیں، اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اسکول سیل کرنے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع یا نوٹس موصول نہیں ہوا۔ اسکول کے باہر دیوار پر جو نوٹیکیشن آویزاں کیا گیا تھا اس کے مطابق پلاٹ نمبر 325/1 اور 356 جی آر ای گارڈن ایسٹ کوارٹرز کو خطرناک حالت کے باعث بند کیا گیا ہے۔
ایس بی سی اے حکام نے انتباہ جاری کیا ہے کہ بلڈنگ کی حدود میں کوئی داخل نہ ہو، ممنوعہ حدود میں داخل ہونے کا قانون لاگو ہوگا اور خلاف ورزی کی صورت میں قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
دوسری جانب اسکول سیل کیے جانے پر اساتذہ اور طالبات اسکول کے باہر اسمبلی لگانے کے بعد گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ اسکول انتظامیہ نے بتایا کہ علاقے کے ٹاؤن ناظم اور ہیڈ مسٹریس نے نوٹیفکیشن کے بارے میں پہلے سولجر بازار تھانے اور پھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے آفس سے معلومات حاصل کیں تو انہوں نے اسکول کے سیل کرنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور ہیڈ مسٹریس کو بتایا کہ سرکاری یا غیر سرکاری عمارت کو سیل کرنے سے پہلے نوٹس بھیجے جاتے ہیں جبکہ علاقہ پولیس اسٹیشن سمیت دیگر متعلقہ دفاتر جس میں کے الیکٹرک اور سوئی گیس کمپنی کو بھی نوٹیفکیشن کی کاپی بھیجی جاتی ہے۔
ٹاؤن ناظم نے علاقہ پولیس کی موجودگی میں اسکول پر لگائی جانے والی جعلی سیل کو توڑ دیا ، اسکول انتامیہ ، چوکیدار اور اسکول میں پڑھنے والی بچیوں کے والدین نے بتایا کہ مافیا اسکول کی اراضی پر قبضے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے ، یہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہے اس سے قبل تین مرتبہ اسکول کی اراضی پر قبضے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
کچھ عرصہ قبل تو مافیا کے کارندوں نے بلڈورزر سے عمارت کو گرانے کی کوشش کی تاہم اس وقت بھی علاقہ مکینوں اور پولیس کی مداخلت کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی تھے، اسکول پر قبضہ کرنے والے اثر رسوخ والے ہیں وہ آئندہ بھی اسطرح کی کوشش کرینگے تاہم انہیں پھر ناکامی ہی ہوگی ، کیونکہ اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور محنت کش شہریوں کی بچیاں پڑھتی ہیں اور ان کی دعاؤں سے قبضہ مافیا کو ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔
طالبات کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سارے اسکول پرائیوٹ ہیں جن کی ہزاروں روپے فیس ہے ، والدین محنت مزدوری کرتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ مہنگے اسکولوں کی فیس دے سکیں۔
بچیوں کا کہنا تھا کہ انہیں پڑھنے اور پڑھ کر کچھ بننے کا شوق ہے اور ہمارے اس اسکول میں اساتذہ پوری توجہ کے ساتھ ہمیں پڑھاتے ہیں ، طالبات نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ کہ خدارا ہمارے اسکول کو سیل نہ کریں کیونکہ اگر اسکول سیل ہوا تو ہمارے تعلیم پر بھی تالے لگ جائنگے ۔