چیونٹیوں کی بڑھتی اسمگلنگ، کتنا منافع بخش کاروبار اور نقصانات کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
افریقی چیونٹیوں کی اسمگلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے تاہم جانوروں اور کیڑوں کو بیرون ملک لے جانا نہ صرف ان کے لیے مضر ہے بلکہ یہ انسانی صحت پر بھی منفی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق کینیا میں حال ہی میں 4 نوجوانوں کو چیونٹیوں کی اسمگلنگ کی کوشش کے جرم میں ملوث پائے جانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ 2 الگ الگ واقعات میں ان افراد کو 7 ہزار 700 امریکی ڈالر جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
ان جرائم میں بیلجیم کے 2، ایک ویتنامی اور کینیا کا ایک شہری ملوث پایا گیا۔ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ملزمان نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس چیونٹیاں موجود تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ انہیں شوقیہ اکٹھا کر رہے تھے۔ تاہم کینیا کی عدالت نے ان کے مؤقف پر یقین نہیں کیا۔
بیلجیم کے دونوں نوجوانوں کے قبضے سے 5 ہزار سے زائد زندہ چیونٹیاں برآمد ہوئیں جو روئی کے ساتھ تقریبا 2 ہزار چھوٹی پلاسٹک ٹیوبز میں رکھی گئی تھیں۔
ویتنامی اور کینیا کے شہریوں کے پاس سے تقریبا 300 چیونٹیاں برآمد ہوئیں۔ انہوں نے بھی ان چیونٹیوں کو 140 کے قریب ٹیوبز میں رکھا ہوا تھا۔
جرمان کے قبضے سے ملنے والی کچھ چیونٹیاں ‘جائنٹ افریکن ہارویسٹر اینٹ تھیں۔ اس قسم کی فی چیونٹی کی قیمیت 100 سے 220 امریکی ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر وہ اسمگلنگ کامیاب ہو جاتی تو مجرمان بڑی رقم کما سکتے تھے۔
کینیا وائلڈ لائف سروس(کے ڈبلیو ایس) کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ ملک میں جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا مظہر ہے۔
کے ڈبلیو ایس کے مطابق چیونٹیوں کی اسمگلنگ بائیو پائریسی بھی کہلاتی ہے کیونکہ یہ ناگویا پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے جو حیاتیاتی وسائل کے منصفانہ اور مساوی فائدے کی تقسیم کے لیے بین الاقوامی معاہدہ ہے۔
کینیا میں بائیو پائریسی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ بن رہا ہے۔ بائیو پائریسی ایسے حیاتیاتی مواد (جیسے دواؤں والے پودے) کا غیر اخلاقی یا غیر قانونی حصول اور تجارتی استعمال ہے جو کسی ملک یا علاقے کی ملکیت ہو۔
کینیا وائلڈ لائف سروس کے مطابق غیر قانونی وائلڈ لائف ٹریڈ میں اب بڑے جانوروں کے ساتھ ساتھ کم معروف مگر ماحولیاتی طور پر اہم جانوروں کی غیر قانونی تجارت بھی ہونے لگی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے جرائم دنیا بھر میں منشیات، جعلی اشیا اور انسانی اسمگلنگ کے بعد چوتھا سب سے بڑا سرحد پار مجرمانہ کاروبار ہے۔
اگرچہ کیڑے مکوڑوں کی غیر قانونی تجارت نسبتاً کم دیکھی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ شوقین افراد غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی چیونٹیوں اور مکڑیوں کے لیے بھاری رقم دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ جائنٹ افریکن ہارویسٹر اینٹ 20 ملی میٹر تک لمبی ہوتی ہے جبکہ کوئینا اینٹ 25 ملی میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔
چیونٹیوں سمیت دیگر جانوروں کی غیر قانونی تجارت ماحولیاتی نظام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ اسمگلنگ مقامی ماحول کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے اور انسانی صحت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ غیر صحت بخش حالات میں ان جانوروں کی نقل و حمل اور انسانوں سے بڑھتا ہوا رابطہ سیلمونیلا، کورونا وائرس، منکی پاکس اور برڈ فلو جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ جرمنی کی نیچر اینڈ بایو ڈائیورسٹی کنزرویشن یونین کے مطابق تقریباً 75 فیصد نئی متعدی انسانی بیماریاں جانوروں سے آتی ہیں۔
ریسرچ کے مطابق میملز اور پرندوں میں تقریباً 5 لاکھ 40 ہزار تا 8 لاکھ 50 ہزار نامعلوم وائرس موجود ہوتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افریقی چیونٹیاں افریقی چیونٹیوں کی اسمگلنگ کینیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کینیا کے مطابق سکتی ہے کے لیے
پڑھیں:
لاہور: عید قرباں سے قبل 6 مویشی منڈیوں کے قیام کا فیصلہ
لاہور(نیوز ڈیسک)عیدالاضحیٰ کی آمد کے پیش نظر لاہور میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے ایک مستقل اور پانچ عارضی مویشی منڈیوں کے قیام کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور میں اس سال مجموعی طور پر چھ مویشی منڈیاں قائم کی جائیں گی۔ مستقل مویشی منڈی روایتی مقام شاہ پور کانجراں میں لگائی جائے گی، جہاں ہر سال کی طرح اس بار بھی بڑے پیمانے پر جانوروں کی خرید و فروخت کی جائے گی۔
ڈی سی لاہور کے نوٹیفکیشن کے مطابق پانچ عارضی مویشی منڈیاں تحصیل واہگہ، نشتر، راوی، کینٹ اور رائیونڈ تحصیل میں لگائی جائے گی۔
انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کو سہولیات کی فراہمی، ٹریفک کنٹرول، صفائی اور سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ متوقع خریداروں اور بیوپاریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مخصوص مقامات پر ہی جانوروں کی خرید و فروخت کریں تاکہ شہر میں ٹریفک اور صفائی کے مسائل سے بچا جا سکے۔
مزیدپڑھیں:بارشیں ہی بارشیں ؛ این ڈی ایم اے نے اہم پیش گوئی کردی