Daily Ausaf:
2025-11-05@02:43:47 GMT

روٹی، کپڑااور مکان تا نیاپاکستان

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

دنیا ایک ایسے دو رستوں پر چل رہی ہے جہاں ایک طرف امارت کے محل بلند ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف فاقہ کشی کےقبرستان پھیلتے جا رہے ہیں۔ کچھ انسانوں کے لیے ہر دن ایک نئی کامیابی کی نوید لاتا ہے،جبکہ کروڑوں کے لیے ہر طلوع ہوتا سورج فاقے، محرومی اور ذلت کا پیغام بن کر ابھرتا ہے۔ آکسفیم کی حالیہ رپورٹ نے اس تلخ حقیقت کو پھر سے ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے:صرف ایک سال کے دوران امریکہ کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں 365 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، یعنی روزانہ ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ! یہ اعداد و شمار فوربز کی رئیل ٹائم بلینیئر لسٹ سے لیے گئے ہیں۔ صرف ایلون مسک کی دولت میں 186 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، جو کہ اس مجموعی اضافے کا نصف سے زیادہ ہے۔یہ الفاظ نہیں، یہ دنیا کے غریبوں کے زخموں پر نمک ہیں۔ یہ اربوں ڈالرز کی باتیں ان مائوں کی سسکیوں میں گونجتی ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان بوڑھے ہاتھوں کی بےبسی کو عیاں کرتےہیں جو ساری عمر محنت کرتے کرتے تھک گئے مگر بڑھاپے میں دو وقت کی روٹی کے محتاج بن گئے۔ یہ رپورٹ اس نظام پر طمانچہ ہے جو سرمایہ دار کو خدا بناتا ہے اور غریب کو ایک انسان تک کا رتبہ نہیں دیتا اور مہنگائی کی دلدل میں دفن کر دیتا ہے۔ پاکستان اس معاشی ظلم کی زد میں آنے والا سب سے بڑا شکار بن چکا ہے۔ ملک میں مہنگائی ایک عفریت کی طرح ہر روز غریب کی ہڈیوں کا گودا چوس رہی ہے۔ آٹا، چینی، گھی، گوشت ہر چیز ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ دیہات میں اب صرف شام کے دھندلکے نہیں اترتے، اب وہاں بھوک کی دھند چھائی رہتی ہے۔ شہروں کے فٹ پاتھوں پر سوتے بچے، کچرے سے رزق تلاش کرتی عورتیں اور مرد ، اور ہسپتالوں کے در پر تڑپتے مریض اس ملک کے حکمرانوں کے ضمیر پر مسلسل دستک دے رہے ہیں، مگر اقتدار کے ایوانوں میں یہ دستکیں گونج نہیں پاتیں۔جب دنیا کے امیر ترین افراد کے اثاثے روزانہ ایک ارب ڈالر بڑھ رہے ہوں اور دوسری طرف پاکستان میں مزدور کی یومیہ مزدوری دو وقت کے کھانے کو پورا نہ کر پائے، تو یہ صرف معاشی فرق نہیں ہوتا، یہ ایک اجتماعی اخلاقی سانحہ ہوتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسانیت دم توڑ دیتی ہے، جب نظام عدل نہیں کرتا بلکہ دولت کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔پاکستان میں غربت ایک دھند نہیں، بلکہ ایک مسلسل بڑھتا ہوا دھواں ہے جو ہر روز ہزاروں گھروں کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صبح گھر سے نکلتا ہے اور شام کو صرف سانسیں لے کر لوٹتا ہے۔ دوائی لینا خواب بن چکا ہے، بچوں کو تعلیم دلانا ایک نا ممکن خواہش۔ اور جب ان کے سامنے ایلون مسک اور مارک زکربرگ جیسے لوگوں کے اثاثوں میں روزانہ اربوں کا اضافہ ہوتا نظر آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں حسرت سے زیادہ ایک ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے جو ایک دن یا تو انقلاب بنے گی، یا پھر مکمل مایوسی۔پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں غربت کا رونا صرف الیکشن میں یاد کیا جاتا ہے۔ حکمران جب اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘سے لے کر ’’نیا پاکستان‘‘ تک، ہر نعرہ صرف ایک خالی وعدہ بن کر رہ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا غریب ہر حکومت کے بعد مزید غریب ہو جاتا ہے، اور اشرافیہ مزید طاقتور۔
آکسفیم کی رپورٹ صرف امریکہ کی تصویر نہیں دکھا رہی، یہ ایک عالمی آئینہ ہے جس میں پاکستان کا چہرہ سب سے زرد اور افسردہ نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں جب ٹرمپ انتظامیہ نئے بل کی بات کرتی ہے جو صرف امیروں کو فائدہ دے گا، تو وہاں کی ڈیموکریٹ سینیٹر الزبتھ وارن اسے ’’ارب پتیوں کے لیے تحفہ‘‘قرار دیتی ہیں مگر افسوس، پاکستان میں ایسا کوئی سینیٹر، کوئی آواز موجود نہیں جو اس ملک کے کروڑوں مظلوموں کی نمائندگی کر سکے۔ یہاں امیروں کے لیے سب کچھ ہے، مگر غریب کے لیے صرف دھکے، بے عزتی اور موت ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، مگر عوام کی غربت ہر دور میں ویسی ہی رہتی ہے، بلکہ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نے پوچھا، ’’غربت سب سے بڑی دہشت گردی کیوں ہے؟‘‘تو جواب آیا ’’کیونکہ یہ انسان سے اس کا ضمیر، اس کی خود داری، اس کا ایمان بھی چھین لیتی ہے۔’’ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف اعدادوشمار کے پیچھے نہ بھاگیں، بلکہ انسانیت کے دکھوں کو سمجھیں۔ ہم صرف جی ڈی پی، اسٹاک مارکیٹ یا زرمبادلہ کے ذخائر کی بات نہ کریں، بلکہ فٹ پاتھوں پر سوتے بچوں، جھونپڑیوں میں جلتی سلگتی بہنوں بیٹیوں ، اور ماں کی خالی گود کی خاموش چیخیں بھی سنیں۔اگر ہم نے آج بھی ان خالی پیٹوں، ان سنسان برتنوں، ان تڑپتے مریضوں کی فریاد نہ سنی تو وہ دن دور نہیں جب یہ خاموشی طوفان بن جائے گی۔ غربت صرف ایک معاشی اصطلاح نہیں، یہ ایک خنجر ہے جو ہر روز ہزاروں پاکستانیوں کے سینوں میں اترتا ہے خاموشی سے، بے آواز، مگر نہایت بے رحم۔دولت کا ارتکاز، نظام کی بے حسی، اور حکومتوں کی مجرمانہ خاموشی یہ سب ایک مشترکہ جرم ہے جس کا شکار وہ قوم ہو رہی ہے جس نے ایٹم بم بنایا، مگر بھوک سے بچانے والا نظام نہ بنا سکی۔ اب بھی وقت ہے۔ ملک کو صرف معاشی استحکام نہیں، معاشرتی عدل کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں دولت کا بہائو اوپر سے نیچے ہو، نہ کہ نیچے سے اوپر۔ جہاں روٹی سب کو ملے، جہاں تعلیم سب کا حق ہو، جہاں صحت کسی امیر کی جاگیر نہ ہو۔اگر ہم واقعی ایک زندہ قوم بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہو گا جن کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ ورنہ یاد رکھیں، بھوک اگر زبان کھولے تو وہ صرف انقلاب کی بات نہیں کرتی، وہ سب کچھ جلا ڈالتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ارب ڈالر کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)

پاکستان، افغانستان اور دوسرے مسلمان ممالک کے ہاتھوں روس کی شکست کا سہرا یونیورسٹی آف نبراسکا کے شعبہ ’’سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘ کے سر باندھنا ناانصافی اور حقائق کے خلاف ہے۔ کہا گیا کہ یونیورسٹی آف نبراسکا نے افغانوں کو بتایا کہ وہ بہادر، نڈر اور ناقابل تسخیر ہیں اور یہ ٹاسک ان کو سی آئی اے نے دیا تھا۔

بھائی کسی قوم کی بہادری، ناقابل تسخیری یا بزدلی کے لیے ان کا ماضی کافی ہوتا، اس کا یقین دلانے کے لیے کسی یونیورسٹی یا ایجنسی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہادر اور ناقابل تسخیر کہلوانے کے لیے اپنے سر کٹوانے اور دوسروں کے سر کاٹنے پڑتے ہیں، یہ سرویز کرنے اور سبق پڑھانے سے نہیں بنتے۔ نہ بہادری، ناقابل تسخیری اور غیرت کے انجکشن اور ویکسین ملتے ہیں یہ خصلتیں نسل در نسل ڈی این اے میں منتقل ہوتی ہیں۔

کہا گیا کہ سی آئی اے نے یونیورسٹی آف نبراسکا کو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے لیے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا سلیبس بنانے کا ٹاسک دیا تو انھوں نے اس میں جہاد سے متعلق آیات‘ احادیث اور واقعات اکٹھے کر دیے ۔

میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ نبی رحمت العالمین، خاتم النبین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر حملہ آور کفار کے خلاف جہاد کا حکم متعدد بار دیا گیا ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارے لیے قرآن پاک کے بسم اللہ کے "ب" سے لے کر الناس کے "س" تک ایمان لانا لازم ہے، ایک بھی حرف کے انکار کرنے سے بندہ ایمان سے فارغ اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب میں جہاد سے متعلق آیات کو مسلمان طلبا کے نصاب میں شامل کرنے کو سی آئی اے کی فرمائش پر یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟

یہ بھی بتایا گیا کہ ’’امریکا نے پاک افغان سرحد پرسیکڑوں مدارس بنوائے‘ ان کے لیے نئے علماء کرام اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا۔ پاک افغان سرحد پر جو مدارس پہلے سے موجودتھے وہی رہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحد پر مجاہدین کے لیے پاک فوج کی سرپرستی میں ٹریننگ سینٹر قائم کیے گئے۔

یہ بھی کہا گیا مدارس کے سلیبس سے انسانیت، رواداری اور برداشت نکال کر جہاد‘ کفر سے مقابلہ اور توہین مذہب ڈال دیا گیا‘‘۔ میرا یقین ہے جو بندہ مدارس کے نصاب سے واقف نہ ہو وہ تو یہ بات بغیر تحقیق کے مان سکتا ہے مگر یہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ بغیر تحقیق اور زمینی حقایق کے خلاف قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کے اداروں کو اتنے منفی انداز میں  پیش نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی کو شک ہو تو ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ وقت نکال کر مدارس میں کچھ وقت گزاریں، وہاں زیر تعلیم روکھی سوکھی کھانے والے غریب و مفلس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی انسانیت‘ رواداری اور برداشت کا موازنہ عصری علوم کے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبا سے کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ کردار، احترام انسانیت اور ادب و تعظیم کے علمبردار مدارس کے بوری نشین طلباء اپنی مثال آپ ہیں۔

جہاد سی آئی اے کی ہدایت پر یونیورسٹی آف نبراسکا نے مدارس کے نصاب میں شامل نہیں کیا، یہ اللہ رب العزت نے رسول مقبول حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر فرض کیا اور مدارس میں علوم شریعہ (قرآن و سنت) پڑھائے جاتے ہیں۔

میں 1994ء سے 1997ء تک جہاد افغانستان کی برکت سے آزادی حاصل کرنے والے وسطی ایشیا کے ممالک میں رہا ہوں، اپنے مشاہدے کے علاوہ وہاں کے ہزاروں مسلمانوں سے سن چکا ہوں کہ سویت دور میں مساجد و مدارس کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار و روایات کو مسخ کرنے میں کس حد تک گئے تھے۔ مگر افسوس کہ سویت یونین کی اسلام دشمنی، دھریت کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش بنا کر پیش کردیا۔

سویت یونین9 ہزار 5 سو مربع کلو میٹر رقبہ ہڑپ کرنے کے بعد افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا تو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر عالم اسلام کے مقبول ترین آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق شہید اور مجاہد اعظم جنرل اختر عبدالرحمان شہید رحمہ اللہ جیسے ان کے رفقاء کی سرپرستی میں اگر ایک طرف روس کو سبق آموز شکست دی گئی تو دوسری طرف روس سے 9500 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل وسطی ایشیا کے 9 اسلامی ممالک کو آزاد کرایا اور یہ وہ کارنامے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ کو پاکستان اور افغانستان دونوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اگر ہم سوویت یونین کو پھینٹا لگانے میں افغانستان کے مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے اور خدانخواستہ سوویت یونین افعانستان پر قبضہ کرلیتا تو یہ ہمارے لیے افغانستان پر سوویت یونین کے حلیف مشرک ریاست ہندوستان کے قبضے کے مترادف ہوتا اور ہماری 1640 کلومیٹر کی یہ سرحد سوویت یونین اور ہندوستان کے ساتھ ہوتی، ذرا سوچیں کہ مشرق و مغرب میں ہندوستان ہوتا تو کیا ہوتا؟

ریاست پاکستان کو دئے گئے تین مشوروں میں سے ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ’’پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ‘‘ بنانے والے مشورے سے سو فیصد متفق ہوں، ہارڈ اسٹیٹ بن کر ہر پاکستان دشمن کو نشان عبرت بنانا ہوگا مگر باقی مشورے مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا۔ مثلًا ’’عبادت کی اجازت صرف مسجد اور گھر میں ہونی چاہیے‘ سڑک‘ سرراہ یا کسی عوامی مقام پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے، اگر وہ عبادات کی جگہ مذہبی رسومات (جلسے، جلوسوں) کی بات کرتے تو معقول بات ہوتی۔

اصولًا مساجد اور مدارس کا انتظام ریاست کے پاس ہونا چاہیے مگر اس کے لیے متعلقہ افراد کی اہلیت اور قرآن و حدیث پر عبور ضروری ہے، جب ریاست کے ذمے داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کا سردست فقدان ہے۔

اگر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے عصری علوم کے اداروں اور خاص کر بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ کا حشر حکومتی تحویل میں جانے کے بعد دیکھا جائے تو انشاء اللہ کوئی بھی مدارس کو قومی تحویل میں دینے کا مشورہ نہیں دے گا۔ جاوید چوہدری صاحب نے ایک طرف تو عوام کو لڑائی سے ہٹانے اور کتابیں پڑھنے اسپورٹس اور ڈیبیٹس پر لگانے، شہروں میں جم اور جاگنگ ٹریکس بنانے کے معقول مشورے دیے اور دوسری طرف وہ نسل نو کو فلموں اور موسیقی اور بسنت جیسے خونی ہندو تہواروں سے پابندی اٹھانے کو قومی مسائل کا حل بتا رہے ہیں۔ مارنے اور دوسرے کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے معقول مشورے کے ساتھ انھوں نے "کڑاہی گوشت" کھانے کو بھی اچھا نہیں قرار دیا مگر پتہ نہیں مقبول زمانہ روایتی پکوان ’’افغانی پلاؤ‘‘ کیسے بھول گئے۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • غربت کم کرنے کیلیے برآمدات کو بڑھانا ہوگا، وزیر سرمایہ کاری
  • سماجی ترقی و غربت کے خاتمے پر عالمی اتفاق، دوحہ سیاسی اعلامیہ منظور
  • غربت کم کرنے کےلیے پاکستان کو ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا، وزیر سرمایہ کاری
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کے خلاف آپریشن تیز، راولپنڈی میں 216 افغان شہری گرفتار
  • راولپنڈی ؛ افغان باشندوں کو مکان کرایہ پر دینے والے 18 مالک مکان گرفتار
  • لاہور: رائیونڈ میں افغان مہاجرین کو رہائش دینے والے کیخلاف مقدمہ درج