روٹی، کپڑااور مکان تا نیاپاکستان
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
دنیا ایک ایسے دو رستوں پر چل رہی ہے جہاں ایک طرف امارت کے محل بلند ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف فاقہ کشی کےقبرستان پھیلتے جا رہے ہیں۔ کچھ انسانوں کے لیے ہر دن ایک نئی کامیابی کی نوید لاتا ہے،جبکہ کروڑوں کے لیے ہر طلوع ہوتا سورج فاقے، محرومی اور ذلت کا پیغام بن کر ابھرتا ہے۔ آکسفیم کی حالیہ رپورٹ نے اس تلخ حقیقت کو پھر سے ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے:صرف ایک سال کے دوران امریکہ کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں 365 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، یعنی روزانہ ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ! یہ اعداد و شمار فوربز کی رئیل ٹائم بلینیئر لسٹ سے لیے گئے ہیں۔ صرف ایلون مسک کی دولت میں 186 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، جو کہ اس مجموعی اضافے کا نصف سے زیادہ ہے۔یہ الفاظ نہیں، یہ دنیا کے غریبوں کے زخموں پر نمک ہیں۔ یہ اربوں ڈالرز کی باتیں ان مائوں کی سسکیوں میں گونجتی ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان بوڑھے ہاتھوں کی بےبسی کو عیاں کرتےہیں جو ساری عمر محنت کرتے کرتے تھک گئے مگر بڑھاپے میں دو وقت کی روٹی کے محتاج بن گئے۔ یہ رپورٹ اس نظام پر طمانچہ ہے جو سرمایہ دار کو خدا بناتا ہے اور غریب کو ایک انسان تک کا رتبہ نہیں دیتا اور مہنگائی کی دلدل میں دفن کر دیتا ہے۔ پاکستان اس معاشی ظلم کی زد میں آنے والا سب سے بڑا شکار بن چکا ہے۔ ملک میں مہنگائی ایک عفریت کی طرح ہر روز غریب کی ہڈیوں کا گودا چوس رہی ہے۔ آٹا، چینی، گھی، گوشت ہر چیز ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔ دیہات میں اب صرف شام کے دھندلکے نہیں اترتے، اب وہاں بھوک کی دھند چھائی رہتی ہے۔ شہروں کے فٹ پاتھوں پر سوتے بچے، کچرے سے رزق تلاش کرتی عورتیں اور مرد ، اور ہسپتالوں کے در پر تڑپتے مریض اس ملک کے حکمرانوں کے ضمیر پر مسلسل دستک دے رہے ہیں، مگر اقتدار کے ایوانوں میں یہ دستکیں گونج نہیں پاتیں۔جب دنیا کے امیر ترین افراد کے اثاثے روزانہ ایک ارب ڈالر بڑھ رہے ہوں اور دوسری طرف پاکستان میں مزدور کی یومیہ مزدوری دو وقت کے کھانے کو پورا نہ کر پائے، تو یہ صرف معاشی فرق نہیں ہوتا، یہ ایک اجتماعی اخلاقی سانحہ ہوتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسانیت دم توڑ دیتی ہے، جب نظام عدل نہیں کرتا بلکہ دولت کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔پاکستان میں غربت ایک دھند نہیں، بلکہ ایک مسلسل بڑھتا ہوا دھواں ہے جو ہر روز ہزاروں گھروں کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صبح گھر سے نکلتا ہے اور شام کو صرف سانسیں لے کر لوٹتا ہے۔ دوائی لینا خواب بن چکا ہے، بچوں کو تعلیم دلانا ایک نا ممکن خواہش۔ اور جب ان کے سامنے ایلون مسک اور مارک زکربرگ جیسے لوگوں کے اثاثوں میں روزانہ اربوں کا اضافہ ہوتا نظر آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں حسرت سے زیادہ ایک ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے جو ایک دن یا تو انقلاب بنے گی، یا پھر مکمل مایوسی۔پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں غربت کا رونا صرف الیکشن میں یاد کیا جاتا ہے۔ حکمران جب اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘سے لے کر ’’نیا پاکستان‘‘ تک، ہر نعرہ صرف ایک خالی وعدہ بن کر رہ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا غریب ہر حکومت کے بعد مزید غریب ہو جاتا ہے، اور اشرافیہ مزید طاقتور۔
آکسفیم کی رپورٹ صرف امریکہ کی تصویر نہیں دکھا رہی، یہ ایک عالمی آئینہ ہے جس میں پاکستان کا چہرہ سب سے زرد اور افسردہ نظر آ رہا ہے۔امریکہ میں جب ٹرمپ انتظامیہ نئے بل کی بات کرتی ہے جو صرف امیروں کو فائدہ دے گا، تو وہاں کی ڈیموکریٹ سینیٹر الزبتھ وارن اسے ’’ارب پتیوں کے لیے تحفہ‘‘قرار دیتی ہیں مگر افسوس، پاکستان میں ایسا کوئی سینیٹر، کوئی آواز موجود نہیں جو اس ملک کے کروڑوں مظلوموں کی نمائندگی کر سکے۔ یہاں امیروں کے لیے سب کچھ ہے، مگر غریب کے لیے صرف دھکے، بے عزتی اور موت ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، مگر عوام کی غربت ہر دور میں ویسی ہی رہتی ہے، بلکہ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نے پوچھا، ’’غربت سب سے بڑی دہشت گردی کیوں ہے؟‘‘تو جواب آیا ’’کیونکہ یہ انسان سے اس کا ضمیر، اس کی خود داری، اس کا ایمان بھی چھین لیتی ہے۔’’ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف اعدادوشمار کے پیچھے نہ بھاگیں، بلکہ انسانیت کے دکھوں کو سمجھیں۔ ہم صرف جی ڈی پی، اسٹاک مارکیٹ یا زرمبادلہ کے ذخائر کی بات نہ کریں، بلکہ فٹ پاتھوں پر سوتے بچوں، جھونپڑیوں میں جلتی سلگتی بہنوں بیٹیوں ، اور ماں کی خالی گود کی خاموش چیخیں بھی سنیں۔اگر ہم نے آج بھی ان خالی پیٹوں، ان سنسان برتنوں، ان تڑپتے مریضوں کی فریاد نہ سنی تو وہ دن دور نہیں جب یہ خاموشی طوفان بن جائے گی۔ غربت صرف ایک معاشی اصطلاح نہیں، یہ ایک خنجر ہے جو ہر روز ہزاروں پاکستانیوں کے سینوں میں اترتا ہے خاموشی سے، بے آواز، مگر نہایت بے رحم۔دولت کا ارتکاز، نظام کی بے حسی، اور حکومتوں کی مجرمانہ خاموشی یہ سب ایک مشترکہ جرم ہے جس کا شکار وہ قوم ہو رہی ہے جس نے ایٹم بم بنایا، مگر بھوک سے بچانے والا نظام نہ بنا سکی۔ اب بھی وقت ہے۔ ملک کو صرف معاشی استحکام نہیں، معاشرتی عدل کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں دولت کا بہائو اوپر سے نیچے ہو، نہ کہ نیچے سے اوپر۔ جہاں روٹی سب کو ملے، جہاں تعلیم سب کا حق ہو، جہاں صحت کسی امیر کی جاگیر نہ ہو۔اگر ہم واقعی ایک زندہ قوم بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہو گا جن کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ ورنہ یاد رکھیں، بھوک اگر زبان کھولے تو وہ صرف انقلاب کی بات نہیں کرتی، وہ سب کچھ جلا ڈالتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ارب ڈالر کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی فوری امداد
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔
روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔
متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔
ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔
اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔
15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔
گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔
اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔
اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔