اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
ایسوپ قدیم یونان کا ایک قصہ گو تھا اس کا زمانہ 620تا 564 قبل از مسیح مانا جا تا ہے اس کی لکھی کہانیاں ہم تک Aesop’s Fabless کی شکل میں ہیں وہ اپنی ایک حکایت میں لکھتا ہے ” ایک سوداگر دریاکے پاس سے اپنے گدھے پر نمک کے بھاری ڈلے لادے گھر جارہا تھا دریا کی ذراکم پانی والی وہ جگہ آگئی جہاں سے وہ بنا کسی حادثے کے روز گزرتا تھا لیکن اس روز درمیان میں جاکر گدھے کا پائوں پھسلا او ر وہ پانی میں گر گیا اور جب تک سوداگر نے اسے دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا تو آدھے سے زیادہ نمک پانی میں حل ہوچکاتھا گدھے نے باقی کا سفر خو شی خوشی طے کیا اگلے دن سوداگر پھر نمک لینے گیا واپسی پر گدھے کو یاد تھا کہ کم پانی والی جگہ پر ایک روز پہلے کیا ہوا تھا چنانچہ اس نے وہاں پہنچ کر خود کو جان بوجھ کر پانی میں گرا لیا اور اپنے بوجھ کا ایک بڑے حصے سے جان چھڑالی سوداگر کو سخت غصہ آیا اس نے اسی وقت گدھے کا رخ موڑا اور اسے واپس منڈی لے گیا وہاں اس نے گدھے پر اسفنج سے بھرے دو بڑے بورے اس پر لا دئیے واپسی پر کم پانی والی جگہ پہنچ کر گدھا پھر سے پانی میں گر گیا لیکن جب وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوا تو اسے لگ پتہ گیا اب وہ ایک بے کس گدھا تھا جسے گھر تک اس بوجھ کو ڈھانا پڑا جو پہلے سے کہیں دس گنا بھاری تھا ” اس لیے تو کہتے ہیں کہ ایک جیسے اٹھائے گئے اقدامات ہر طرح کے حالات میں کام نہیں آتے ۔ اور قصور وں کے معاملے میں تو بالکل ہی نہیں آتے ہیں ۔
شیکسپیئر اپنے ڈرامے "Hamlet”میں لکھتا ہے ” جب ہم اپنی بے گنا ہی پر زیادہ سے زیادہ اصرار کرتے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں ”۔آپ کی تباہی ہمیشہ اپنے ہاتھوں ہوتی ہے نہ کہ دوسروں کے ہاتھوں ۔ یہ بات ہمیشہ تباہی کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ تبا ہی سے پہلے پہلے آپ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا چھپا ہوا سمجھ دار اور عقل مند سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ قدرت باربار آپ کو اشارے دے رہی ہوتی ہے لیکن آپ ہر بار اس کو نظر انداز کررہے ہوتے ہیں لیڈیا کے بادشاہ قارون جس کے پاس دولت کے انبار تھے نے اپنے ایک منظور نظر خادم کو دارلتخا ہ بھیجا تاکہ معلوم کیاجاسکے کہ وہ ایرانیوں پر حملہ کرے یا نہ کرے وہاں سے جواب آیا ” اگر وہ ایرانیوں کے خلاف فوج بھیجے گا تو پھر وہ ایک عظیم سلطنت تبا ہ کر دیگا ”۔ لہذا شہ پاکر اس نے حملہ کردیا دوران جنگ اسے معلوم ہواکہ غیبی آواز نے بالکل درست کہا تھا جو سلطنت تباہ ہوئی وہ اسی ہی کی سلطنت تھی ۔ عام طورپر احساس برتری اپنے تباہی کے بیج اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ تباہی کے بعد ہی کیوں سمجھتے ہیں تباہی سے پہلے ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی یا یہ کہ ہم تباہی سے پہلے سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا پھر یہ کہ انسان کو خواہشات کا قیدی بنایا گیا ہے ہم میں سے کچھ لوگ کافی جدو جہد کے بعد اس قید سے رہائی پالیتے ہیں اور ہر دکھ سے آزاد ہوجاتے ہیں باقی اپنے قید کے عذاب میں ہی سے تسکین پاتے رہتے ہیں آپ اور کچھ نہ کریں صرف اپنے ملک کے بعض اہم طاقتور کرداروں کی زندگی کاجائزہ لے لیں تو آپ بر ملا کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ خدا نے انہیں ہر چیز سے نوازا ہے ہر نعمت سے مالا مال کررکھا ہے پھر یہ آخر کیوں مزید ”اور ” کے لیے مارے مارے پھررہے ہیں کیوں اپنا سر پھوڑ نے پر بضد ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خدا کی دی گئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے خود بھی چین اور سکون سے زندگی گزارتے اور دوسروں کو بھی چین اور سکون سے رہنے میں مدد دیتے ۔ آخر وہ اتنی دولت کے انباروں کا کیا کریں گے اتنی زمینوں ، ملوں ، گھروں کا آخر کریں گے کیا۔ یہ چھوٹی سی زندگی آخر ان کا کتنا ساتھ دے گی کیا انہیں خدا اور اس کے انصاف پر یقین نہیں ہے کیا یہ سب روز حساب سے مبرا ہوگئے ہیں ۔ یہ سب ان دولت کے انباروں ، محلوں ، زمینوں ، جاگیروں سے آخر کونسا انو کھا سکھ ، چین اور خو شی پارہے ہیں جو دوسرے انسان نہیں پارہے ہیں کیا یہ سب عام انسانوں کی طرح چھ فٹ کے بستر پر نہیں ہوتے ہیں یا پھر ان ہزاروں گز کے بستر پر سوتے ہیں کیا یہ دیگر انسانوں کی طرح کھانا کھاتے ہیں یا پھر جنون کی طرح کھاتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ نوٹ کھارہے ہوں کیونکہ نوٹوں کو جمع کرنے کی ان کی ہوش ختم ہی نہیں ہو پارہی ہے اب تو اس پر یقین ہو تا جارہا ہے کہ یہ سب کے سب مختلف ذہنی بیماریوں میں گرفتار ہیں اور اس گرفتاری سے انہیں رہائی ہی نہیںمل پارہی ہے۔
عظیم یونانی فلسفی پائرہونے کہا تھا ”دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے بعد دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ لو گ اپنی خواہش کے لیے باہم لڑتے اور جد وجہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کو دوسری چیزوں سے بہتر تصور کر لیتے ہیں اس قسم کی جدو جہداور کوشش بے مقصد اور لا حاصل ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اورغیر اہم ہیں ”۔ خواہشات کے غلام اصل میں خود اذیتی کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں وہ خود کو اذیت پہ اذیت دئیے جاتے ہیں ۔ یہ بالکل اپنے زخموں کو کرید کر لذت حاصل کرنے کی مانند ہے یہ جتنی لذت حاصل کرتے جاتے ہیں زخم اتنے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر وہ ناسور بن جاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے وہ اپنے ناسور وں سے ہی لذت پاتے رہتے ہیں چین میں کہاوت مشہور ہے کہ دولت تین نسلوں سے آگے نہیں بڑھتی ۔ اس لیے یہ کچھ بھی کرلیں اس جمع دولت کو آخر کار لٹ ہی جانا ہے اور ان کے نصیب میں صرف ایک اجڑی ہوئی بر باد قبر ہی آتی ہے جہاں کسی نے ان کے لیے فاتحہ تک پڑھنے نہیں آنا اوریہ سب حساب دیتے دیتے تھک جائیں گے لیکن حساب پھر بھی ختم نہیں ہوں گے اور نئے عذابوں کاایک ایسا نیاسلسلہ شروع ہوجائے گاجو کبھی بھی ختم نہیں ہوپائے گا یہ جتنا چیخیں گے چلائیں گے وہ عذاب کاسلسلہ اتنا طویل ہوتا جائے گا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پانی میں جاتے ہیں ہوتے ہیں ہی نہیں کے بعد
پڑھیں:
فلسفۂ قربانی اور عصرِ جدید
مفہوم: ’’بے شک! ( اے حبیبؐ) ہم نے آپؐ کو خیر کثیر عطا فرمایا۔ پس اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی دیجیے۔ بے شک! آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔‘‘
ذی الحج کا مہینہ آنے سے قبل ہی عید قرباں اور قربانی کا غلغلہ مچ جا تا ہے۔ لاکھوں خوش نصیب بارگاہ ایزدی میں فریضۂ حج کی ادائی کے لیے اطراف و اکناف عالم سے کشاں کشاں مکہ مکرمہ کھنچے چلے جاتے ہیں، تاہم کروڑوں مسلمان جو بہ وجوہ وہاں نہیں پہنچ پاتے، وہ اپنی ایمانی و روحانی تسکین کے حصول کے لیے سنّت مصطفوی ﷺ کی پیروی کر تے ہوئے اس عظیم واقعے کی یاد تازہ رکھتے اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ ہر سال جانوروں کی قربانی کر تے ہیں، تاکہ سیدنا ابراہیم اور ان کے عظیم فرزند سیدنا اسمٰعیل علیہم السلام اور آپؑ کے خانوادے کی رضائے الٰہی کے لیے کی گئی عظیم قربانی کی یاد گار ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے۔
امام کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل بھی یہ عمل ادا کیا جاتا رہا، بل کہ قرآن مجید کے مطابق ابتدائے انسانیت سے ہی یہ پاکیزہ جذبہ موجود ہے۔ البتہ اس جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی اور قیامت تک یہ سنت ابراہیمی اہل ایمان ادا کر تے رہیں گے۔
ہم اور ہمارے اسلاف صدیوں سے یہ عمل دہراتے آرہے ہیں تاہم آج جب کہ امت مسلمہ بے شمار مسائل کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، ایسے ماحول میں شدید ضرورت ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں کہ آیا اس عظیم عمل کی ادائی محض رسمی عبادت ہے اور اس کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا اور گوشت کا حصول ہے یا اس عمل کے پس پردہ کار فرما رب تعالیٰ کو مطلوب مقاصد و حکمتیں ہیں۔
ذرا مشاہدہ کیجیے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ جن پر ہم نے جزدان سجا کر گرد و غبار کی موٹی تہیں جما رکھی ہیں، وہ کیا کہتی ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ اور ان کی امت کو جو مقام شرف و عظمت عطا فرما یا ہے اس کے تقاضوں کے تحت شکر ربانی کے طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے امام کائنات ﷺ کو جن بلندیوں و رفعتوں سے سر فراز فرمایا، انہیں امام الانبیاء، شفیع المذنبین اور رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مناصب جلیلہ عطا فرمائے بل کہ ’’ وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَکَ‘‘ کہہ کر شان مصطفی ﷺ پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ جب جب اور جہاں جہاں رب کی کبریائی ہے، وہاں وہاں میرے مصطفی ﷺ کی مصطفائی ہے۔
سبحان اﷲ! یہ مقام عظمت و بزرگی کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوسکا جب خالق کائنات نے اپنی نعمتوں کو اپنے محبوب پر اکمال و اتمام فرمایا تو شرط بھی عاید کردی کہ دنیا و آخرت میں ہم نے آپ ﷺ اور آپؐ کی امت کو سب سے بلندی عطا فرمائی تو شکر نعمت کا تقاضا ہے کہ اب آپ ﷺ اور آپؐ کی امت بھی اپنے رب کا حق ادا کریں اور اس کے لیے دو عمل بیان فرما دیے کہ ایک تو نماز قائم کریں اور دوسرے قربانی دیں۔
ہمارے معاشرے میں فریضۂ نماز کی ادائی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے البتہ قربانی کے فریضے کا جائزہ لیں تو عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں افراد مرد، خواتین یہاں تک کہ معصوم بچے اور بچیاں تک جانور کی تلاش میں دن بھر بل کہ رات رات بھر منڈیوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور نمازیں ضایع کر تے ہوئے ایک ایسے عمل میں منہمک رہتے ہیں جو یقیناً انتہائی محبوب و مستحسن ہے تاہم ایک ایسے فرض سے بے پرواہی جو کفر اسلام کا خط امتیاز ہے واجب یا مسنون عمل کی ادائی ہرگز اس کے مقابل نہیں ہو سکتا۔
قربانی نام ہے اپنی جان و مال سمیت فکر و نظریات، خواہشات، ضروریات، پسند ناپسند، خوشی غمی، حتیٰ کہ اہل و عیال اور عزیز ترین شے کو اپنے رب کی مرضیات کے مطابق ڈھال لینا اور ہر طرح کے ایثار کے لیے ذہنی، فکری، مالی، جسمانی رحجانات و میلانات کو سیرت مصطفی ﷺ کے مطابق ڈھال لینا۔ آئیے! بہ نظر عمیق خود احتسابی کی چھلنی سے اپنے آپ کو گزاریں۔ یقین جانیے صحیح تصویر سامنے آجائے گی کہ آیا ہم زبانی کلامی یا بعض نمائشی اقدامات کے ذریعے بہ زعم خود کسی پندار میں الجھے ہوئے ہیں یا واقعی ہم قربانی کی روح اور فلسفے سے آشنا ہوکر اپنے رب کے محبوب بندوں میں شمار ہو تے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
عید الاضحیٰ اور قربانی کا سبق اہل ایمان کے لیے تو یہ ہے کہ ہر طرح کی عبادت و ریاضت کا مقصود و مطلوب خالق کائنات کی خالص بندگی اور رضا مندی حاصل ہوجائے۔ یقیناً قربانی بھی انھی اعمال میں سے ایک ہے، اگر یہ عمل خالصتاً اﷲ کے لیے ہے اور اس میں کسی قسم کی ریا کاری دکھا وا یا آج کل جیسا کہ رجحان بن چکا ہے، خاندان، برادری، محلے یا معاشرے میں مسابقت اور نمود و نمائش ہے تو پھر جان لیجیے کہ رب تعالیٰ کو ایسی قربانیوں کی ضرورت نہیں۔
ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون، بل کہ اسے (یعنی اﷲ تعالیٰ کو) تو تمہارے دلوں کی پرہیزگاری (یعنی تقویٰ) پہنچتا ہے۔ اسی طرح اﷲ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کو (یعنی اﷲ تعالیٰ کی عطا کر دہ) ہدایت کے شکریے میں اس کی کبریائی بیان کر و اور (اے میرے حبیب ﷺ) نیک لوگوں کو (جنت و رضائے الٰہی) کی خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ (سورۃ الحج)
اب پتا چلا کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی، بالخصوص ہماری قومی، معاشی، اقتصادی، دفاعی، تعلیمی پس ماندگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق جذبۂ قربانی کو بیدار کر ے اگر آپ کے مالی وسائل نہیں اور قرض کی ادائی بھی ممکن نہیں تو آپ قربانی کے مکلف نہیں ہیں، البتہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیگر نعمتوں آپ مثلاً علم و ہنر، معاملہ فہمی، شعور و ادراک یا جسمانی، ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے سر فراز فرمایا ہے تو اب آپ کی قربانی و ایثار یہ ہے کہ دین متین اور امت مسلمہ کی سربلندی و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں سے ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت جو نمایاں خدمات سر انجام دے سکتے ہوں، تو ضرور دیجیے۔
یہی قربانی کا فلسفہ ہے کہ جہاں ایک طرف اہل اسلام اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے منکرات سے بچ کر معروفات پر کماحقہ عمل پیرا ہوں، وہیں سنت ابراہیمی کی روشنی میں نفس امارہ کے منہ زور گھوڑے کو اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی، خود غرضی، بے حسی، کفار کی نقالی، تہذیبی اقدار کی پامالی، معاشرتی بے اعتدالی، ملی و ملکی عزت و حرمت کے منافی امور سے اجتناب، جھوٹ، ملاوٹ، خیانت، بددیانتی، نسلی، لسانی، علاقائی تفاخر کے بہ جائے اسلام کو وجۂ افتخار بنانے اور ظلم، زیادتی، کرپشن، رشوت لوٹ کھسوٹ اور تمام تر انفرادی و اجتماعی گناہوں سے استغفار و اصلاح نفس کے ساتھ پوری امت کی اصلاح و خیر خواہی کے جذبے کو بیدار کیا جائے اور اس کے عملی اظہار کی خاطر مضبوط جماعتی زندگی کی استواری ہو تو یقیناً ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھ پائیں اور دنیا و آخرت کی کام رانیوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
آئیے! اس موقع پر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے کتاب و سنّت سے راہ نمائی حاصل کریں اور قربانی کا درس دیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: (اے میرے حبیب ﷺ) ’’آپ فرما دیجیے کہ بے شک! میری نماز میری قربانی (ساری عبادتیں) اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (نہ ذات میں نہ صفات میں) اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والوں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام)
اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی زبانی فلسفۂ قربانی بل کہ تمام تر عبادات نماز، روزہ، حج، قربانی، زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی غرض و غایت اور روح یہ ہے کہ ہر عمل خالص رضائے الٰہی کے حصول اور تطہیر نفس کے ساتھ اعتقادی، انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہو اور مسلم معاشرہ باہمی رواداری، خیر خواہی اور انسانی ہم دردی پر مبنی ہو، جس میں ہر خاص و عام کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔ ایسا مثالی معاشرہ ضبط نفس اور ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔