Express News:
2025-09-18@13:17:08 GMT

سندھ میں سیاسی بیداری

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

صوبہ سندھ میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماضی میں جو بھی تحریکیں سندھ میں چلیں اور خاص کر ایم آر ڈی 1983 کی تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان تحاریک کی قیادت سندھ کے وڈیروں نے کی تھی۔ اس بات میں کہیں کچھ صداقت بھی پائی جاتی ، ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کی وجہ سے سندھ کے عوام میں شدید غم و غصہ تھا اور وڈیرے اس بات پر مجبور تھے کہ وہ عوام سے کٹ کر رہ نہیں سکتے تھے۔

ایم آر ڈی کی تحریک دو ہفتے بھی نہ چل پائی تھی کہ سندھ کے وڈیرے جو جیلوں تک پہنچے، انھوں نے معافی نامے لکھ کر اپنی جانیں چھڑوائیں اور رہا ہوگئے۔ بعد میں یہ تحریک ان ہاتھوں میں آئی جن کا نظریہ اور سوچ بائیں بازو کا تھا جیسا کہ رسول بخش پلیجو اور جام ساقی وغیرہ۔ پیپلز پارٹی کے ورکر وڈیروں کی دسترس کے بغیر اس تحریک سے جڑے رہے۔

سندھ میں اس وقت جس تحریک نے جنم لیا ہے، وہ وڈیروں کی زیر قیادت نہیں ہے۔ یہ تحریک سندھ سے کارپوریٹ فارمنگ اور چولستان میں چھ نہروں کے خلاف ابھری ہے۔ اس تحریک کا آغاز وکلاء، مڈل کلاس اور سیاسی پارٹیوں نے کیا ہے۔ پچھتر برس سے ایسے لوگ وڈیروں کے زیرِ اثر رہے ہیں۔

کوئی بھی سیاسی پارٹی وڈیروں کے بغیر جیت نہیں پائی۔ کسی حد تک یہ جمود ذوالفقار علی بھٹوکی سحرانگیز شخصیت نے توڑا لیکن بہرحال پیپلز پارٹی وڈیروں ہی کی اکثریتی پارٹی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ کل تک پارٹیوں کی مجبوری وڈیرے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو دور تک ان وڈیروں کی مجبوری پیپلز پارٹی تھی۔ انتخابات میں دونوں اطرافی پارٹیوں کے امیدوار وڈیرے ہی ہوتے تھے لیکن جیت اس کی ہوتی تھی جس کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملتا تھا۔ تین چھوٹے صوبوں سے صرف سندھ میں قوم پرستوں کو ووٹ نہیں ملتا تھا۔ قوم پرست لیڈر ہوں یا پھر مڈل کلاس ان پچھتر سالوں میں ان میں سے ایک بھی صوبائی یا پھر قومی اسمبلی کی سیٹ پر ووٹ لے کر نہیں پہنچ سکا۔

سندھ کا مجموعی بیانیہ یا پھر متفقہ تاریخ کی تشریح سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف کی شاعری کے گرد گھومتی رہی جس پر سب متفق تھے، لیکن سندھ کو قوم پرستوں کا مزاج شیخ ایازکی شاعری کے گرد گھومتا رہا، جو مزاحمت کے لب ولہجے میں شاعری کرتے تھے۔ وہ اپنی مزاحمت کو سترھویں صدی کے شاہ عنایت صوفی سے جوڑتے تھے اور پندرھویں صدی کے مخدوم بلاول کے ساتھ جوڑتے تھے جس کو ارغون اور ترخان حملہ آوروں نے ان کی صوفی اقدارکو نشانہ بناتے ہوئے چکی میں پیس دیا تھا۔

حالیہ تبدیلی کے باعث سندھ کے عوام وڈیروں کی دسترس سے باہر نکل آئے ہیں۔ یہ کام قوم پرست نہ کر پائے لیکن سندھی وکلاء نے کر دکھایا۔ ببرلوکا دھرنا وکلاء دھرنا نہیں تھا بلکہ یہ عوام کا دھرنا تھا۔ جنھوں نے بلآخر پچھتر سال بعد وڈیروں کے شکنجے سے ہمت کر کے آزادی پائی اور باہر نکلے۔

میں جب ببرلو دھرنے پر پہنچا تو پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا کہ غریب دہقان، عورتیں اور ان کے بچے تپتی دھوپ میں وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ بی بی سی نے تو بہت کچھ رپورٹ کیا ہے لیکن میرے اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ کے قریب بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ اس دھرنے میں شریک تھے جو دس روز تک آتے اور جاتے رہے اور جو یقینا کسی نہ کسی وڈیرے کے شکنجے میں رہے ہوںگے۔

سندھ کے مختلف کونوں سے روزانہ لوگ وہاں آتے تھے۔ یہ بھی حیرانی کی بات تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرز اور ٹرک راستہ بلاک ہونے کی وجہ سے وہاں رکے ہوئے تھے، ان ٹرکوں اورکنٹینرز میں اربوں روپوں کا سامان تھا لیکن کسی نے بھی ان کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی۔

سندھ کے لاشعور میں صوفیانہ مزاج شامل ہے۔ ان کی ہر تحریک پرامن رہی ہے، وہ کبھی بھی کسی نو مئی جیسے واقعے کو اپنی تحریک کا حصہ نہیں بنا سکتے، مگر دو تین روز قبل جو مورو شہر میں واقعات ہوئے، انھوں نے سندھ کے لوگوں کے پرامن مزاج کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

 20 مئی کو مورو ہائی وے پر نہروں اور کارپوریٹ فارمنگ کے ایشو پر ایک مظاہرہ کیا گیا ۔ پھر کہیں سے گولیاں چلی ، جواباً مظاہرین میں سے کچھ شرپسندوں نے ضیاء لنجار کے گھر پر حملہ کیا۔ یہ انتہائی غلط ہوا کہ روڈ پر کھڑے ٹرکوں کو آگ لگائی گئی اور ان کو لوٹنے کی کوشش کی گئی جو پرامن مظاہرین کا نہیں بلکہ شرپسند عناصرکا کام تھا جو ان لوگوں میں شامل ہوگئے ۔ اس طرزعمل اور شرپسندوں کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے۔

ان دو ماہ میں سندھ کے عوام نے جو اپنا ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے حکومت پر اپنی برہمی کا اظہارکیا ہے، اس نے پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کو نہروں کے ایشو پر پسا کردیا، سندھ میں اقرباء پروری، امن و امان کی خراب صورتحال، بے روزگاری! زراعت کے لیے پانی کی شدید کمی نے دیہی سندھ کے کسانوں اور عام طبقے کو پریشان کررکھا ہے۔وڈیرہ شاہی سوچ نے دہقانوں کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھا۔

ایسی صورتحال میں ان لوگوں کو سوائے کھیتی باڑی کے کچھ اور آتا بھی نہیں ہے۔ ایک معاصر انگریزی اخبارکی رپورٹ کے مطابق دس برس میں سمندر 124 دیہہ نگل گیا ہے جو برابر ہوگا دس لاکھ ایکڑ زمین کے۔ انڈس ڈیلٹا کی حدود میں رہنے والے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اس بات کی سمجھ ہمارے حکمرانوں میں شاید ہے ہی نہیں کہ سندھ کی آبادی کے ستر فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں اور وہ بے روزگار ہیں۔ سندھ میں غربت و افلاس کے ڈیرے ہیں اور اب ان سے دریا بھی چھینا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح سے ان پر وڈیرے مسلط کیے ہیں تو ان کے درمیان قوم پرستوں کی اہمیت مزید بڑھے گی۔ سندھ کو اس وقت انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو حالات بہتری کے بجائے مزید ابتری کا شکار ہو جائیں۔

سندھ میں اگر آج شفاف انتخابات کا انعقاد ہوا تو پیپلز پارٹی ووٹ نہیں حاصل کرسکے گی۔ سندھ اپنے خد و خال واضح کرچکا ہے ، وہ وڈیروں کی غلامی سے آزادی کا خواہاں ہے۔ سندھ اپنے حقوق مانگ رہا ہے اور یہ سندھ کا حق ہے، صرف ضرورت ہے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی وڈیروں کی سندھ کے

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ‏جو کردار آج کی پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب میں ادا کیا ہے وہ پنجاب یاد رکھے گا: عظمیٰ بخاری
  • سیاف کی اپیل پر میرٹ کی پامالی کیخلاف احتجاجی کیمپ قائم
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری