اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا اور عسکری سیاسی و سفارتی سطح پر بھرپور نقصان پہنچایا ہے کہ جسے وہ برسوں یاد رکھے گا، مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرے اور آیندہ پاکستان سے جنگ کرنے سے گریزکرے، کیونکہ مودی کا تعلق راشٹریہ سیوک سنگھ ٹولے سے ہے جس نے پاکستان کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔
اس نے تو بھارتی ترنگے جھنڈے اور بھارتی آئین کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ تو واضح ہے کہ وہ پورے جنوبی ایشیا کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان کا قیام اس کے اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
1952 تک آر ایس ایس کے ناگپور میں واقع ہیڈ کوارٹر پر ہندوتوا کا نارنجی جھنڈا لہراتا رہا مگر اس کے بعد جب انتہا پسند ہندوتوا کا سب سے بڑا پرچارک گول والکر دنیا سے کوچ گرگیا، تب اس کے بعد کے آر ایس ایس کے رہنماؤں نے دنیا اور بھارت کے بدلے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے بھارتی ترنگے اور بھارتی آئین کو اپنی پالیسی میں شامل کر لیا مگر مسلمانوں سے بدستور دشمنی جاری رکھی کہ ان کے مطابق مسلمان غیر ملکی ہیں، وہ بھارت پر صدیوں قابض رہے ہیں، اب انھیں ان کی اوقات یاد دلائی جائے اور بھارت سے باہر نکالا جائے۔
آر ایس ایس وہ انتہا پسند پارٹی ہے جو ہٹلر کی نازی پارٹی سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ نازی پارٹی کا نعرہ تھا کہ جرمنی صرف جرمنوں کا ہے۔ وہ دنیا کی سب سے اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ غیر جرمن قومیں یعنی یورپ کی دیگر اقوام ان کے آگے ہیچ ہیں، وہ پورے یورپ کو اپنی جاگیر قرار دیتے تھے اور اس پر قبضہ کر کے اپنے نظریات کی حامل حکومت بنانا چاہتے تھے، بس ایسے ہی نظریات آر ایس ایس کے ہیں۔
اس سے تعلق رکھنے والے خود کو دنیا کی سب سے اعلیٰ قوم تصور کرتے ہیں۔ بھارت کو اپنی جاگیر خیال کرتے ہیں اور بھارت میں آباد دیگر اقوام کو کم تر خیال کرتے ہیں اور انھیں بھارت کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ہندوتوائی بڑے فخر سے ہندوستان کو اپنا وطن قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بھارت کے قدیم باشندے نہیں بلکہ وہ دجلہ اور فرات کے علاقوں کے پرانے مکین ہیں ،کسی زمانے میں اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگے اور ہندوستان میں آ کر پناہ لی۔
اس وقت ہندوستان میں جو قومیں آباد تھیں یہ ان پر حاوی ہو گئے اور انھیں اپنا غلام بنا لیا۔ ان قدیم باشندوں کو تاریخ دراوڑ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان قابضین نے ہندوستان کی آبادی کو چار طبقوں میں بانٹ دیا۔ خود برہمن ،کھتری اور ویش کہلانے لگے اور مقامی باشندوں کو شودرکا نام دیا جو ہندو جاتی واد میں نچلا طبقہ ہے۔ ان کو اس جدید دور میں بھی سب سے پسماندہ طبقہ مانا جاتا ہے ۔
آج اعلیٰ ذات کے ہندو خود کو ہندوستان کا مالک کہتے ہیں جو سراسر غلط ہے کیونکہ یہ تو باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ ہندوستان کے اصل مالک تو دلت ہیں جن کی آبادی آج بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے زیادہ ہے مگر انھیں بہ زور طاقت پسماندہ رکھا گیا ہے۔
چناں چہ آر ایس ایس کا مسلمانوں کو غیر ملکی ہونے کا طعنہ دینا مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ تو خود غیر ملکی ہیں۔ بہرحال ان کی تمام عادات نازیوں سے ملتی جلتی ہیں، یہ نازیوں کی طرح تشدد پسند اور امن کے دشمن ہیں، یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو ایٹم بم کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ نازی اپنے غرور، تکبر اور نفرت کی عادت کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے اور جرمنی کے حصے بخرے ہوگئے۔
اس وقت دنیا میں نازی سے ملتی جلتی قوم یہودی اور اسرائیلی ہیں، وہ بھی نازیوں کے راستے پر چل رہے ہیں۔ ہندوتوا فلسفہ بھی صہیونی نظریات سے بہت قریب ہے۔ اکھنڈ بھارت کا سب سے پہلے نعرہ بلند کرنے والے گول والکر نے اپنی کتاب "We or Our Nationhood Defined" میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے۔
مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے کا نعرہ بھی سب سے پہلے اسی انتہا پسند شخص نے لگایا تھا مگر دوسری جانب یہ انگریزوں کو ہندوستان پر حکومت کرنے کے خلاف نہیں تھا۔ اسی آر ایس ایس کے ایک انتہا پسند رکن ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو اس لیے قتل کر دیا تھا کہ اس نے قیام پاکستان کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے جب کہ یہودی انتہا پسند رہنما ربی میر کہانے نے اپنی کتاب "They Must Go" میں فلسطین سے فلسطینیوں کو باہر نکالنے اور ایک کٹر یہودی ریاست بنانے کی وکالت کی تھی۔
اس کی سیاسی پارٹی کا نام ’’KACH‘‘ کش تھا جس سے نیتن یاہو کا تعلق ہے۔ اس وقت مودی اور نیتن یاہو کی دوستی کا بنیادی نکتہ صرف مسلم دشمنی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت شروع سے ہی پاکستان کا دشمن ہے دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں مگر پاکستانی دریاؤں کا پانی نہیں روکا گیا کیونکہ یہ غیر انسانی اور غیر قانونی اقدام ہے مگر موجودہ آر ایس ایس کی زیرسر پرستی قائم مودی حکومت نے یہ انتہا پسندانہ قدم بھی اٹھا لیا ہے۔ پاکستانی دریاؤں کے پانی کا مسئلہ دراصل 25 کروڑ عوام کی موت اور زندگی کا مسئلہ ہے مگر مودی نے اس گھناؤنے اقدام کو اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
بھارت کو آزادی دلانے والا یقینا گاندھی تھا مگر افسوس کہ آج کے بھارت میں گاندھی ولن اور اس کا قاتل گوڈسے ہیرو مانا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلگام کا سازشی منصوبہ خود مودی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے کیونکہ اس کا ثبوت وہ آج تک دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکا جس سے دنیا سمجھ گئی ہے کہ یہ بھی بھارتی حکومت کے گزشتہ پاکستان کے خلاف سازشی منصوبوں کا حصہ تھا جس کے ذریعے وہ پاکستان کو اپنی طاقت کا مزہ چکھانا چاہ رہا تھا۔
وہ اپنی طاقت کے نشے میں پاکستان کو فلسطین اور خود کو اسرائیل جیسی طاقت ثابت کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ فلسطین ہے اور بھارت ہرگز اسرائیل نہیں ہے۔ پاکستان اپنی آزادی اور سالمیت کا دفاع کرنا جانتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارت پاکستان کو کبھی کا ہڑپ کر چکا ہوتا اور اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کر چکا ہوتا۔ پاکستان میں سیاسی خلفشار ضرور ہے مگر ہماری فوج اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں رہی اور آیندہ بھی مودی جیسے موذی دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیتی رہے گی۔
اس وقت مودی حکومت سخت مشکل میں ہے کیونکہ وہ اپنی شکست کا جواب اپنے عوام کو دینے سے کترا رہی ہے اور ہر سوال کرنے والے کو غدار قرار دے رہی ہے۔ کیا ایسی حکومت کو جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے؟ اگر جمہوریت کا یہی معیار ہے تو پھر ہمیں شمالی کوریا اور برما کو ڈکٹیٹر حکومتیں کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آر ایس ایس کے پاکستان کو انتہا پسند اور بھارت ہے کیونکہ ہے کہ وہ کو اپنی ہے مگر
پڑھیں:
پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کا حق ہے، بھارتی وزیراعظم مودی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہوئے خونریز حملے کے ایک ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو پاکستان سے متصل بھارت کی شمال مغربی ریاست راجھستان میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں مودی نے گزشتہ ماہ یعنی اپریل کی 22 تاریخ کو پہلگام میں ہونے والے حملے ، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے نئی دہلی کو پانیکی تقسیم کے معاہدے کی معطلی پر مجبور کیا تھا۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
ورلڈ بینک کی ثالثی میں 1960ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے مابین پانی کی تقسیم کا 'سندھطاس معاہدہ‘ طے ہوا تھا۔ اس معاہدے کی معطلی کا اعلان بھارت نے اپریل کے حملے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا تھا۔
(جاری ہے)
نئی دہلی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کی حمایت سے ہوا۔ پاکستان کی طرف سے تاہم اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔
بعد ازاں دونوں پڑوسی ممالک 10 مئی کو جنگ بندی پر عملدرآمد سے پہلے تقریباً گزشتہ تین دہائیوں میں اپنی بدترین فوجی جھڑپوں کے ساتھ جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔بعد ازاں معاملات بہتر ہوئے اور جنگ بندی کے کچھ روز بعد بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ایک بیان میں تصدیق کی، ’’فی الحال دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ کا کوئی تازہ تبادلہ نہیں ہوا اور دونوں فورسز کی کچھ ضروری ری پوزیشننگ عمل میں آئی ہے۔
‘‘سندھ طاس معاہدہ کتنا اہم؟
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو پانی میسر ہوتا ہے۔ تین دریاؤں سے پاکستان میں آنے والا پانی ملک کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم رواں ماہ پاکستان کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اس کی معطلی سے کوئی ’’فوری اثر‘‘ نہیں پڑے گا۔
جنوبی ایشیا کی دو جوہری ریاستیں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان میں سے دو ہمالیہ کے متنازعہ علاقے کشمیرپر ہوئیں۔
ادارت: عاصم سلیم