روسی قانون سازوں نے اینیمٹڈ کریکٹرز کے خلاف محاذ کھول دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
روسی اراکینِ پارلیمان نے پیر کے روز ایک گول میز کانفرنس میں مغربی اینی میٹڈ فلموں، کھلونوں اور ویڈیو گیمز پر سخت تنقید کی، اور کہا کہ ’ Shrek‘ جیسے خیالی کردار روسی بچوں پر تباہ کن اثرات ڈال رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:چینی فلم’نیژا 2′ اینیمیٹڈ فلم باکس آفس میں پہلے نمبر پر
روس کی اسٹیٹ ڈوما کی رکن یانا لانتراتوووا نے اپنی پریزنٹیشن میں کہا، یہ کردار بظاہر برے نہیں لگتے، لیکن ان کی ظاہری شکل اور شخصیت میں واضح خامیاں ہوتی ہیں۔
انہوں نے سوویت دور کی بچوں کی فلموں اور کھلونوں کا موازنہ مغربی ذرائع سے آنے والے کرداروں سے کیا۔ اس موقع پر پیش کی جانے والی پرزنٹیشن میں ایک سلائیڈ میں لکھا تھا:
’جب سے مغربی ثقافت ہماری طرف آئی ہے، منفی صفات والے کردار مثبت کرداروں کی طرح پیش کیے جانے لگے ہیں۔ خالص مثبت کرداروں کی تصویر دھندلا گئی ہے‘۔
اس سلائیڈ پر ’ Shrek‘، ’گرنچ‘ اور 2001 کی فلم ’مونسٹرز اِنک‘ کے کرداروں کی تصاویر شامل تھیں۔
’اے جسٹ رشیا‘ پارٹی کے سربراہ سرگئی میرونوف نے مغرب پر روس کے خلاف ہائبرڈ وار (غیر روایتی جنگ) کا الزام لگایا اور خبردار کیا کہ ماسکو مخالف حکومتیں ایک پرانی کہاوت پر عمل کر رہی ہیں:
’اگر دشمن کو شکست دینی ہے، تو اس کے بچوں کی تربیت کرو‘۔
میرونوف نے کہا کہ بدقسمتی سے مغربی ممالک بہت منظم طریقے سے ہمارے بچوں کے اذہان پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
لانتراتوووا، جو ’اے جسٹ رشیا‘ پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور پارلیمان میں شہری سماج اور مذہبی امور کی کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ مغربی بچوں کے مواد کو روس میں روکنے کے لیے موجودہ قوانین میں خلا ہے، جس کی وجہ سے اقدامات میں رکاوٹ آ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس نشست میں سامنے آنے والی تجاویز کو پارلیمنٹ کے اس ورکنگ گروپ کے ساتھ شیئر کریں گی جو روایتی روسی روحانی اقدار سے متعلق قوانین پر کام کر رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’اے جسٹ رشیا‘ پارٹی ’مونسٹرز اِنک‘ Monsters Inc Shrek اینیمیٹڈ کردار روس سویت یونین گرنچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے جسٹ رشیا پارٹی اینیمیٹڈ کردار سویت یونین کہا کہ
پڑھیں:
بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے،خواجہ آصف
سیالکوٹ(نمائندہ خصوصی )وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں تو مودی چپ ہی کر گیا ہے۔سیالکوٹ میں میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس محاذ پر پُرامید ہیں کہ دونوں ممالک کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ طورخم بارڈر غیر قانونی مقیم افغانیوں کی بے دخلی کےلیے کھولی گئی ہے، طورخم بارڈر پر کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی، بے دخلی کا عمل جاری رہنا چاہیے تاکہ اس بہانے یہ لوگ دوبارہ نہ ٹک سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر چیز معطل ہے، ویزا پراسس بھی بند ہے، جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا، افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، پہلے تو غیر قانونی مقیم افغانیوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا، اس کا مؤقف تھا کہ یہ مسئلہ پاکستان کا ہے، اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونر شپ سامنے آ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں ہوئی گفتگو میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر افغانستان سے کوئی غیر قانونی سرگرمی ہوتی ہے تو اس کا ہرجانہ دینا ہو گا، ہماری طرف سے تو کسی قسم کی حرکت نہیں ہو رہی، سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے، افغانستان کر رہا ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان تاثر دے رہا ہے کہ ان سب میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً کے پی کے عوام میں سخت غصہ ہے، اس مسلئے کی وجہ سے کے پی صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، قوم سمیت سیاستدان اور تمام ادارے آن بورڈ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوری حل ہو، حل صرف واحد ہے کہ افغان سر زمین سے دہشت گردی بند ہو۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکیں تو یہ قابلِ ترجیح ہو گا، افغانستان کی طرف سے جو تفریق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسے پوری دنیا سمجھتی ہے، جو نقصانات 5 دہائیوں میں پاکستان نے اٹھائے ہیں وہ ہمارے مشترکہ نقصانات ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی جانب سے پراکسی وار کے ثبوت اشرف غنی کے دور سے ہیں، اب تو ثبوت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب اس بات پر یقین کر رہے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ثبوت دیں گے۔