Islam Times:
2025-11-05@02:39:00 GMT

اہل غزہ کی استقامت اور مسلم حکمران

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

اہل غزہ کی استقامت اور مسلم حکمران

اسلام ٹائمز: اگر اتنے مسلم ممالک ملکر ایک اسرائیل کو دہشتگردی سے باز نہیں رکھ پا رہے ہیں تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے۔؟ استعمار کل ان پر بھی کسی بڑی طاقت کو مسلط کر دے گا اور انکے دفاعی معاہدے دھرے رہ جائیں گے۔ کیا عرب حکمران غزہ کی موجودہ صورتحال سے بے خبر ہیں۔ کیا انہیں علم نہیں کہ غزہ میں بھکمری کا سایہ پھیلتا جا رہا ہے۔ انہیں ٹرمپ سے اس موضوع پر بات کرکے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کیلئے کھلوانا چاہیئے تھا۔ وہ عرب ممالک جو ہمیشہ عالمی طاقتوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، اُنہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیئے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ تحریر: عادل فراز
adilfarazlko@gmail.

com

غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی وسائل کا بحران بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی طاقتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں اور غزہ کو برباد دیکھ کر خوشیاں منا رہی ہیں۔ گو کہ اب عالمی رائے اسرائیل کے خلاف ہے مگر جب تک امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، اسرائیل کو کسی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے، مگر اس کا اثر نظر نہیں آیا۔ اگر دنیا غزہ کے تئیں مخلص اور فکرمند ہوتی تو اب تک رفح کراسنگ کو امدادی سامان کی ترسیل کے لئے کھلوایا جا چکا ہوتا۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں پھیلتی بھکمری کے سلسلے میں جو انتباہ دیا ہے، اس کے بعد بھی عالمی طاقتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے بیس مئی کو "بی بی سی" کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "اگر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں غزہ کو فوری مدد فراہم نہ کی گئی تو چودہ ہزار بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ فلیچر نے کہا کہ حالات اب اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ اگر بروقت مدد نہ ملی تو یہ بحران نسل کشی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔"

اس انتباہ کے بعد دنیا کو اسرائیل کے خلاف متحد ہو جانا چاہیئے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس بارے میں دنیا سے کیا گلہ کرنا، کیونکہ جب نام نہاد مسلم حکمران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے غزہ جنگ بندی پر بات نہیں کرسکے تو پھر کسی سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ کے دورۂ مشرق وسطیٰ پر جتنی دولت خرچ کی گئی، اس سے غزہ کے عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرائی جاسکتی تھیں، مگر امریکی صدر کے سامنے مسلمانوں کی ناموس کو بے حیائی کے ساتھ رقص پر مجبور کرنے والے حکمران نہ تو مسئلۂ فلسطین کے حل پر سنجیدہ ہیں اور نہ انہیں غزہ میں جنگ بندی سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ لوگ صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہیں۔ امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس دورے کا مقصد مسلم حکمرانوں پر اپنی بالادستی کا اظہار اور ان کی غلامانہ ذہنیت کو دنیا کے سامنے آشکار کرنا تھا۔

جبکہ اس سے پہلے بھی امریکی صدور یہ کام کرچکے ہیں، مگر اس بار ذرا نرالے انداز میں کیا گیا۔ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دور صدارت میں جب فلسطینیوں کے خلاف "صدی معاہدے" کا مسودہ پیش کیا تھا، اس وقت بھی عرب حکمرانوں نے اُس منصوبے کی تائید کی تھی۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے اعلانیہ اسرائیل کو فلسطین سونپنے کی حمایت نہیں کی، مگر "صدی معاہدے" کا منصوبہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر کی حمایت سے یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کر لیا گیا۔ جو بائیڈن کی شکست اور ٹرمپ کی فتح کے بعد ایک بار پھر "صدی معاہدہ" کا منصوبہ غیر اعلانیہ طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ نے پہلا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لئے پُرعزم ہیں۔ گو کہ اس اعلان کی چوطرفہ مخالفت ہوئی، مگر یہ مخالفت برائے نام تھی۔

اب جبکہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے تو پوری دنیا نے ان کے مخفی عزائم کو جانچا بھی اور پرکھا بھی۔ اُس پر جس طرح مسلم حکمرانوں نے اسلامی غیرت کو روندتے ہوئے ان کا استقبال کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عربوں میں صہیونی عناصر پوری طرح داخل ہوچکے ہیں اور "گریٹر اسرائیل" کے خدوخال بھی واضح ہونے لگے ہیں۔ یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کے مطابق تمام جگہوں پر آباد ہوسکیں۔ البتہ وہ "ارض وعدہ" پر اپنے افراد اور حکمران مقرر کرکے اس منصوبے کو عملی شکل دے سکتے ہیں، جس پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔خانۂ کعبہ کی آمدنی بھی اس منصوبے کی کامیابی پر خرچ کی جا رہی ہے۔ اسی آمدنی سے امریکی صدر کی ذہنی عیاشی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس پر چار سو ملین ڈالر کا جہاز تحفے میں دے کر عالم اسلام کے خود ساختہ رہنمائوں نے "شیطان بزرگ" کے ہاتھوں پر اعلانیہ بیعت کرلی۔ اس کے بعد بھی اگر مسلمان ان کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس سے زیادہ ذہنی غلامی اور فکری پستی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔

امریکی صدر نے دورۂ مشرق وسطیٰ کے وقت نہ تو قیام امن کے لئے کوئی اقدام کیا اور نہ اس خطے کے مفادات کی پرواہ کی۔ مشرق وسطیٰ اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے۔ ہر طرف جنگی صورت حال کارفرما ہے۔ ایسے بدتر حالات میں امریکی صدر عربوں کی عیاشی کا مزہ لینے کے لئے مشرق وسطیٰ کے دورے پر نکلے تھے یا پھر عالم اسلام کو اعلانیہ رسوا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ امریکہ اور سعودی عربیہ کے درمیان 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے، جو تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ کہا جا رہا ہے۔ آخر ان دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے، اگر عالم اسلام کی حرمت اور غیرت کا دفاع نہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ سعودی عربیہ نے آئندہ دس برسوں کے لئے امریکہ سے ایک کھرب ڈالر پر مشتمل سرمایہ کاری اور تجارتی وعدے کئے ہیں، جنہیں یقیناً پورا کیا جائے گا، کیونکہ یہ معاہدے ہاتھی کے اُن دانتوں کی طرح ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔

پس پردہ تمام معاہدوں کو امریکہ بذات خود پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا، کیونکہ ان ملکوں میں اسی کے آلۂ کار اقتدار پر مسلط ہیں۔ قطر سے 2.1 ٹریلین ڈالر کے اقتصادی معاہدے اس کے علاوہ ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استعمار کے لئے مشرق وسطیٰ کتنا اہم ہے۔ اسی بنا پر اسرائیل کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی چودھراہٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلمان جب تک استعمار کی غلامی کرتے رہیں گے، یہ صورتحال ہرگز تبدیل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے سب سے پہلے مسلمان ملکوں کے عوام کو اپنے حکمرانوں کی بے دینی اور غلامی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اقتدار کی تبدیلی کے بغیر مشرق وسطیٰ کے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے حیائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر سے غزہ جنگ بندی پر کوئی بات نہیں کی۔ کیا اس وقت مشرق وسطیٰ میں غزہ سے زیادہ اہم اور ضروری کوئی دوسرا موضوع ہے۔؟

اگر اتنے مسلم ممالک مل کر ایک اسرائیل کو دہشت گردی سے باز نہیں رکھ پا رہے ہیں تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے۔؟ استعمار کل ان پر بھی کسی بڑی طاقت کو مسلط کر دے گا اور ان کے دفاعی معاہدے دھرے رہ جائیں گے۔ کیا عرب حکمران غزہ کی موجودہ صورتحال سے بے خبر ہیں۔ کیا انہیں علم نہیں کہ غزہ میں بھکمری کا سایہ پھیلتا جا رہا ہے۔ انہیں ٹرمپ سے اس موضوع پر بات کرکے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کے لئے کھلوانا چاہیئے تھا۔ وہ عرب ممالک جو ہمیشہ عالمی طاقتوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، اُنہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیئے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ تمام عرب حکمران ٹرمپ کی خوشامد میں لگے ہوئے تھے اور انہیں عالم اسلام کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان سے زیادہ موثر دبائو تو غیر مسلم ملکوں نے بنایا ہے، جس میں بعض اسرائیل کے حلیف ملک بھی شامل ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں سب سے موثر آواز اسرائیل کے عوام کی طرف سے اٹھنی چاہیئے۔ جب تک اسرائیلی عوام نتن یاہو کے خلاف متحد نہیں ہوں گے، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ غزہ کی نسل نو کبھی اسرائیل کے جرائم کو معاف نہیں کرے گی۔ کیا اسرائیل حماس کو ختم کرکے، یا انہیں خود سپردگی پر مجبور کرکے، اپنے خلاف نئی نسل کے غصے کو دبا پائے گا۔؟ہرگز نہیں! اگر اسرائیل حماس کو ختم یا انہیں خود سپردگی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تب بھی وہ نئی نسل میں پنپتی ہوئی مزاحمت اور بغاوت کی چنگاریوں کو شعلہ بننے سے روک نہیں سکتا۔ لہذا اسرائیلی عوام کو اپنے حکمرانوں کے جنگی جنون کے خلاف متحد ہوکر سڑکوں پر اترنا ہوگا۔ نتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرکے اس کا احتساب کرنا ہوگا۔ ورنہ اسرائیل کبھی یہودیوں لئے محفوظ پناہ گاہ نہیں بن پائے گا۔ آئندہ بھی سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ جیسے حملوں کے لئے اسرائیل کو تیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ ظالمانہ نسل کشی مزاحمت اور بغاوت کو پنپنے سے نہیں روک سکتی۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دفاعی معاہدوں اسرائیل کے امریکی صدر عالم اسلام اسرائیل کو جا رہا ہے کے دفاعی کے خلاف ڈالر کے اور ان پر بات کے لئے ا نہیں غزہ کی کے بعد

پڑھیں:

شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے

شمالی کوریا کے سابق علامتی سربراہِ مملکت اور حکمران خاندان کے ساری عمر وفادار حامی رہنے والے کِم یونگ نام 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

کورین سینٹرل نیوز ایجنسی (کے س این اے) کے مطابق یم یونگ نام 3 نومبر کو متعدد اعضا کی ناکامی کے باعث وفات پا گئے، وہ 1998 سے 2019 تک پیانگ یانگ کی سپریم پیپلز اسمبلی (پارلیمنٹ) کے صدر رہے۔

کِم یونگ نام نے شمالی کوریا کے بانی کِم اِل سُنگ، ان کے بیٹے کِم جونگ اِل، اور موجودہ رہنما کِم جونگ اُن، تینوں کے ادوار میں مختلف سفارتی عہدوں پر خدمات انجام دیں، حالاں کہ وہ کِم خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

کورین سرکاری خبر ایجنسی نے انہیں ایک ’پرانے دور کے انقلابی‘ کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے پارٹی اور ملک کی ترقی کی تاریخ میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے، ان کا جنازہ ریاستی سطح پر ادا کیا گیا۔

کے سی این اے کے مطابق کِم یونگ نام کی پیدائش اُس وقت ہوئی تھی، جب کوریا جاپانی نوآبادیاتی دور میں تھا، وہ ایک ’جاپان مخالف محبِ وطن خاندان‘ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے کِم اِل سُنگ یونیورسٹی (پیانگ یانگ) سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ماسکو میں بھی تعلیم جاری رکھی، جس کے بعد انہوں نے 1950 کی دہائی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

ابتدائی طور پر وہ حکمران جماعت کے نچلے درجے کے عہدیدار تھے، مگر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بنے اور بعد ازاں تقریباً پورے کِم جونگ اِل کے دورِ اقتدار میں سپریم پیپلز اسمبلی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔

اگرچہ اصل طاقت ہمیشہ کِم خاندان کے ہاتھوں میں رہی، مگر کِم یونگ نام کو اکثر بین الاقوامی سطح پر شمالی کوریا کا چہرہ سمجھا جاتا تھا۔

2018 میں انہوں نے سرمائی اولمپکس کے موقع پر جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کے وفد کی قیادت کی، جہاں انہوں نے اُس وقت کے جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن سے ملاقات کی تھی، اس وفد میں کِم جونگ اُن کی بااثر بہن، کِم یو جونگ بھی شامل تھیں۔

کِم یونگ نام نے اس سے قبل 2 سابق جنوبی کوریائی صدور کِم ڈی جونگ (2000) اور رو مو ہْیون (2007) سے بھی بین الکوریائی سربراہی اجلاسوں میں ملاقات کی تھی۔

جنوبی کوریا کے وزیر برائے اتحاد چُنگ ڈونگ یونگ نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کِم یونگ نام کے ساتھ ’کورین جزیرہ نما میں امن کے بارے میں بامعنی گفتگو‘ ہوئی تھی۔

شمالی کوریا کے سابق سفارتکار تھے یونگ ہو (جو اب جنوبی کوریا میں آباد ہیں) نے بی بی سی کو بتایا کہ کِم یونگ نام نے کبھی ایسا لفظ نہیں کہا جو حکومت کو ناپسند ہو۔

انہوں نے کہا کہ ’آنجہانی نے کبھی اپنی رائے ظاہر نہیں کی، ان کے قریبی حامی تھے نہ دشمن، اُنہوں نے کبھی کوئی نیا نظریہ یا پالیسی پیش نہیں کی، صرف وہی دہراتے رہے جو کِم خاندان کہتا تھا‘۔
تھے یونگ ہو کے مطابق کِم یونگ نام اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ شمالی کوریا میں طویل عرصہ زندہ اور محفوظ کیسے رہا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی شہرت صاف ستھری رکھ کر پارٹی کے اندرونی تنقید سے اپنا بچاؤ کیا۔

شمالی کوریا کے دیگر اعلیٰ حکام کے برعکس، کِم یونگ نام کو کبھی برطرف یا تنزلی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ اقتدار کِم خاندان کی 3 نسلوں تک منتقل ہوتا رہا۔

انہوں نے اپریل 2019 میں ریٹائرمنٹ اختیار کرلی تھی۔

ان کی طویل سروس غیر معمولی تھی، کیوں کہ دیگر کئی اعلیٰ عہدیداروں پر ریاستی پالیسیوں کی خلاف ورزی کا شبہ کیا گیا تو انہیں برطرف، جبری مشقت کیمپوں میں بھیجا یا قتل کر دیا گیا تھا۔

مثال کے طور پر، کِم جونگ اُن نے 2013 میں اپنے ماموں چانگ سونگ تھایک کو ’غداری کے اقدامات‘ کے الزام میں سزائے موت دلوا دی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کا معاملہ ،حکمران اتحاد نے ارکان پارلیمنٹ کو اہم ہدایت کردی
  • پولنگ اسٹیشنز پر بم دھماکوں کی دھمکیاں؛ نیویارک کے پہلے مسلم میئر کی کامیابی متوقع
  • شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ کا دعویٰ
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ کیلیے امریکی منصوبے کی حمایت میں مسلم ممالک کا اجلاس کل ہوگا