اہل غزہ کی استقامت اور مسلم حکمران
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر اتنے مسلم ممالک ملکر ایک اسرائیل کو دہشتگردی سے باز نہیں رکھ پا رہے ہیں تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے۔؟ استعمار کل ان پر بھی کسی بڑی طاقت کو مسلط کر دے گا اور انکے دفاعی معاہدے دھرے رہ جائیں گے۔ کیا عرب حکمران غزہ کی موجودہ صورتحال سے بے خبر ہیں۔ کیا انہیں علم نہیں کہ غزہ میں بھکمری کا سایہ پھیلتا جا رہا ہے۔ انہیں ٹرمپ سے اس موضوع پر بات کرکے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کیلئے کھلوانا چاہیئے تھا۔ وہ عرب ممالک جو ہمیشہ عالمی طاقتوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، اُنہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیئے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ تحریر: عادل فراز
adilfarazlko@gmail.
غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی وسائل کا بحران بڑھتا جارہا ہے۔ عالمی طاقتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں اور غزہ کو برباد دیکھ کر خوشیاں منا رہی ہیں۔ گو کہ اب عالمی رائے اسرائیل کے خلاف ہے مگر جب تک امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، اسرائیل کو کسی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے، مگر اس کا اثر نظر نہیں آیا۔ اگر دنیا غزہ کے تئیں مخلص اور فکرمند ہوتی تو اب تک رفح کراسنگ کو امدادی سامان کی ترسیل کے لئے کھلوایا جا چکا ہوتا۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں پھیلتی بھکمری کے سلسلے میں جو انتباہ دیا ہے، اس کے بعد بھی عالمی طاقتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے بیس مئی کو "بی بی سی" کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "اگر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں غزہ کو فوری مدد فراہم نہ کی گئی تو چودہ ہزار بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ فلیچر نے کہا کہ حالات اب اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ اگر بروقت مدد نہ ملی تو یہ بحران نسل کشی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔"
اس انتباہ کے بعد دنیا کو اسرائیل کے خلاف متحد ہو جانا چاہیئے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس بارے میں دنیا سے کیا گلہ کرنا، کیونکہ جب نام نہاد مسلم حکمران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے غزہ جنگ بندی پر بات نہیں کرسکے تو پھر کسی سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ کے دورۂ مشرق وسطیٰ پر جتنی دولت خرچ کی گئی، اس سے غزہ کے عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرائی جاسکتی تھیں، مگر امریکی صدر کے سامنے مسلمانوں کی ناموس کو بے حیائی کے ساتھ رقص پر مجبور کرنے والے حکمران نہ تو مسئلۂ فلسطین کے حل پر سنجیدہ ہیں اور نہ انہیں غزہ میں جنگ بندی سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ لوگ صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہیں۔ امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس دورے کا مقصد مسلم حکمرانوں پر اپنی بالادستی کا اظہار اور ان کی غلامانہ ذہنیت کو دنیا کے سامنے آشکار کرنا تھا۔
جبکہ اس سے پہلے بھی امریکی صدور یہ کام کرچکے ہیں، مگر اس بار ذرا نرالے انداز میں کیا گیا۔ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دور صدارت میں جب فلسطینیوں کے خلاف "صدی معاہدے" کا مسودہ پیش کیا تھا، اس وقت بھی عرب حکمرانوں نے اُس منصوبے کی تائید کی تھی۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے اعلانیہ اسرائیل کو فلسطین سونپنے کی حمایت نہیں کی، مگر "صدی معاہدے" کا منصوبہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر کی حمایت سے یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کر لیا گیا۔ جو بائیڈن کی شکست اور ٹرمپ کی فتح کے بعد ایک بار پھر "صدی معاہدہ" کا منصوبہ غیر اعلانیہ طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ نے پہلا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لئے پُرعزم ہیں۔ گو کہ اس اعلان کی چوطرفہ مخالفت ہوئی، مگر یہ مخالفت برائے نام تھی۔
اب جبکہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے تو پوری دنیا نے ان کے مخفی عزائم کو جانچا بھی اور پرکھا بھی۔ اُس پر جس طرح مسلم حکمرانوں نے اسلامی غیرت کو روندتے ہوئے ان کا استقبال کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عربوں میں صہیونی عناصر پوری طرح داخل ہوچکے ہیں اور "گریٹر اسرائیل" کے خدوخال بھی واضح ہونے لگے ہیں۔ یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کے مطابق تمام جگہوں پر آباد ہوسکیں۔ البتہ وہ "ارض وعدہ" پر اپنے افراد اور حکمران مقرر کرکے اس منصوبے کو عملی شکل دے سکتے ہیں، جس پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔خانۂ کعبہ کی آمدنی بھی اس منصوبے کی کامیابی پر خرچ کی جا رہی ہے۔ اسی آمدنی سے امریکی صدر کی ذہنی عیاشی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس پر چار سو ملین ڈالر کا جہاز تحفے میں دے کر عالم اسلام کے خود ساختہ رہنمائوں نے "شیطان بزرگ" کے ہاتھوں پر اعلانیہ بیعت کرلی۔ اس کے بعد بھی اگر مسلمان ان کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس سے زیادہ ذہنی غلامی اور فکری پستی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
امریکی صدر نے دورۂ مشرق وسطیٰ کے وقت نہ تو قیام امن کے لئے کوئی اقدام کیا اور نہ اس خطے کے مفادات کی پرواہ کی۔ مشرق وسطیٰ اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے۔ ہر طرف جنگی صورت حال کارفرما ہے۔ ایسے بدتر حالات میں امریکی صدر عربوں کی عیاشی کا مزہ لینے کے لئے مشرق وسطیٰ کے دورے پر نکلے تھے یا پھر عالم اسلام کو اعلانیہ رسوا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ امریکہ اور سعودی عربیہ کے درمیان 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے، جو تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ کہا جا رہا ہے۔ آخر ان دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے، اگر عالم اسلام کی حرمت اور غیرت کا دفاع نہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ سعودی عربیہ نے آئندہ دس برسوں کے لئے امریکہ سے ایک کھرب ڈالر پر مشتمل سرمایہ کاری اور تجارتی وعدے کئے ہیں، جنہیں یقیناً پورا کیا جائے گا، کیونکہ یہ معاہدے ہاتھی کے اُن دانتوں کی طرح ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔
پس پردہ تمام معاہدوں کو امریکہ بذات خود پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا، کیونکہ ان ملکوں میں اسی کے آلۂ کار اقتدار پر مسلط ہیں۔ قطر سے 2.1 ٹریلین ڈالر کے اقتصادی معاہدے اس کے علاوہ ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استعمار کے لئے مشرق وسطیٰ کتنا اہم ہے۔ اسی بنا پر اسرائیل کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی چودھراہٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلمان جب تک استعمار کی غلامی کرتے رہیں گے، یہ صورتحال ہرگز تبدیل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے سب سے پہلے مسلمان ملکوں کے عوام کو اپنے حکمرانوں کی بے دینی اور غلامی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اقتدار کی تبدیلی کے بغیر مشرق وسطیٰ کے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے حیائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر سے غزہ جنگ بندی پر کوئی بات نہیں کی۔ کیا اس وقت مشرق وسطیٰ میں غزہ سے زیادہ اہم اور ضروری کوئی دوسرا موضوع ہے۔؟
اگر اتنے مسلم ممالک مل کر ایک اسرائیل کو دہشت گردی سے باز نہیں رکھ پا رہے ہیں تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیا ہے۔؟ استعمار کل ان پر بھی کسی بڑی طاقت کو مسلط کر دے گا اور ان کے دفاعی معاہدے دھرے رہ جائیں گے۔ کیا عرب حکمران غزہ کی موجودہ صورتحال سے بے خبر ہیں۔ کیا انہیں علم نہیں کہ غزہ میں بھکمری کا سایہ پھیلتا جا رہا ہے۔ انہیں ٹرمپ سے اس موضوع پر بات کرکے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کے لئے کھلوانا چاہیئے تھا۔ وہ عرب ممالک جو ہمیشہ عالمی طاقتوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، اُنہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیئے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ تمام عرب حکمران ٹرمپ کی خوشامد میں لگے ہوئے تھے اور انہیں عالم اسلام کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان سے زیادہ موثر دبائو تو غیر مسلم ملکوں نے بنایا ہے، جس میں بعض اسرائیل کے حلیف ملک بھی شامل ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں سب سے موثر آواز اسرائیل کے عوام کی طرف سے اٹھنی چاہیئے۔ جب تک اسرائیلی عوام نتن یاہو کے خلاف متحد نہیں ہوں گے، امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ غزہ کی نسل نو کبھی اسرائیل کے جرائم کو معاف نہیں کرے گی۔ کیا اسرائیل حماس کو ختم کرکے، یا انہیں خود سپردگی پر مجبور کرکے، اپنے خلاف نئی نسل کے غصے کو دبا پائے گا۔؟ہرگز نہیں! اگر اسرائیل حماس کو ختم یا انہیں خود سپردگی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تب بھی وہ نئی نسل میں پنپتی ہوئی مزاحمت اور بغاوت کی چنگاریوں کو شعلہ بننے سے روک نہیں سکتا۔ لہذا اسرائیلی عوام کو اپنے حکمرانوں کے جنگی جنون کے خلاف متحد ہوکر سڑکوں پر اترنا ہوگا۔ نتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرکے اس کا احتساب کرنا ہوگا۔ ورنہ اسرائیل کبھی یہودیوں لئے محفوظ پناہ گاہ نہیں بن پائے گا۔ آئندہ بھی سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ جیسے حملوں کے لئے اسرائیل کو تیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ ظالمانہ نسل کشی مزاحمت اور بغاوت کو پنپنے سے نہیں روک سکتی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دفاعی معاہدوں اسرائیل کے امریکی صدر عالم اسلام اسرائیل کو جا رہا ہے کے دفاعی کے خلاف ڈالر کے اور ان پر بات کے لئے ا نہیں غزہ کی کے بعد
پڑھیں:
غزہ جنگ کی صرف مذمت کرنا کافی نہیں، بیلجئیم
اپنے ایک بیان میں ماکسیم پریووت کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو پہنچنے سے روکنا شرمناک ہے اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بیلجئیم کے وزیر خارجہ "ماکسیم پریووت" نے غزہ کی پٹی پر جارحیت بند نہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس حوالے سے ماکسیم پریووت نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ نسل کشی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے غزہ میں اور کون کون سے جرائم ہونے ہیں۔ غزہ سے آنے والی تصاویر عوام کو اشتعال دلاتی ہیں۔ اس پٹی میں انسانی امداد کو پہنچنے سے روکنا شرمناک ہے۔ بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب غزہ کی سنگین صورت حال کی صرف مذمت کافی نہیں۔ ہمیں اسرائیل کو اپنی پالیسی کی تبدیلی پر مجبور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ غزہ کا محاصرہ ختم ہونا چاہئے تاکہ فلسطینی بچے بھوک سے نہ مریں۔ ماکسیم پریووت نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف پابندیوں سمیت متعدد اقدامات ہماری حکومت کے سامنے رکھے گئے۔ میں غزہ کے تنازعہ میں دونوں طرف کی سیاسی و عسکری شخصیات پر پابندیوں کی حمایت کرتا ہوں۔ میں اُن صیہونی آبادکاروں پر بھی پابندی کی حمایت کرتا ہوں جو آئے روز مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو زبردستی اپنے گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں۔