ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا WhatsAppFacebookTwitter 0 27 May, 2025 سب نیوز
تحریر سجاد بھٹی۔
برصغیر کی روایات میں زمین سے جڑت اور اس کے انسانی جسم اور روح پرمثبت اثرات کی بے شمار روایات ملتی ہیں۔زمین، جس پر ہم چلتے ہیں، جس سے ہم اناج حاصل کرتے ہیں، اور جس سے زندگی کی بقا ممکن ہے، صرف مٹی کا ٹکڑا نہیں بلکہ توانائی کا منبع بھی ہے۔ سائنس کی ترقی کے باوجود، انسان فطرت سے جڑنے کے فوائد کو دوبارہ دریافت کر رہا ہے۔ “ارتھنگ” یا “گراؤنڈنگ” اسی رجحان کا ایک عملی مظہر ہے، جو انسانی جسم اور زمین کے درمیان براہ راست رابطے کو فروغ دیتا ہے۔
ارتھنگ کیا ہے؟ارتھنگ ایک فطری عمل ہے، جس میں انسان ننگے پاؤں زمین پر چل کر، گھاس پر بیٹھ کر یا مٹی پر لیٹ کر خود کو زمین سے جوڑتا ہے۔ یہ تعلق صرف جسمانی نہیں، بلکہ توانائی کا ایک خاموش تبادلہ ہے۔ زمین میں پائے جانے والے ننھے منے منفی ذرّات (الیکٹرانز) ہمارے جسم میں داخل ہو کر اُن نقصان دہ مثبت ذرّات کو بے اثر کر دیتے ہیں، جو سوزش، ذہنی دباؤ اور بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ یوں انسان کو نہ صرف سکون ملتا ہے، بلکہ اس کی طبیعت میں توازن بھی پیدا ہوتا ہے۔
برصغیر، خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں، زمین کو ایک ماں کا درجہ حاصل ہے۔ “بھومی دیوی” کا تصور ہندو ثقافت میں زمین کو مقدس مانتا ہے۔ ہندوستانی عوام صدیوں سے ننگے پاؤں چلنے، مٹی میں بیٹھنے، اور زمینی توانائی سے جڑنے کو روحانی و جسمانی صحت کے لیے مفید سمجھتے آئے ہیں۔بابا بلھے شاہ، وارث شاہ اور دیگر صوفی شعرا نے بھی مٹی اور زمین کے ساتھ تعلق کو انسانی فطرت کے قریب قرار دیا۔
اسلام میں زمین کو عظمت حاصل ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میںسورت البقرہ کی آیت نمبر 22 میں ارشاد باری تعالی ہے۔
“جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی ، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقّرر نہ کرو” ۔
ابنِ سینا نے اپنی مشہور کتاب “القانون فی الطب” میں فطرت سے ہم آہنگ زندگی کو صحت کی بنیاد قرار دیا۔ ان کے مطابق، انسان کی صحت صرف غذا اور دوا پر نہیں بلکہ عناصرِ فطرت، جیسے زمین، پانی، اور ہوا پر بھی منحصر ہے۔زکریا الرازی نے “الحاوی” جیسے طبی انسائیکلوپیڈیا میں مٹی کی شفا بخش خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ وہ مٹی کو زخم بھرنے، سوزش کم کرنے اور جسم کے توازن کو بحال کرنے کے لیے مفید سمجھتے تھے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ارتھنگ پر مختلف سائنسی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ایک قابلِ ذکر تحقیق 2012 میں “Journal of Environmental and Public Health” میں شائع ہوئی جس کے مطابق ارتھنگ سےجسم میں سوزش کم ہوتی ہے،،دل کی دھڑکن میں بہتری آتی ہے،بلڈ پریشر میں توازن آتا ہے اور نا صرف نیند بہتر ہوتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے۔ڈاکٹر اسٹیفن سیناٹرا (Dr.
آج کے جدید انسان نے کنکریٹ کی عمارتوں، اور برقی آلودگی کے درمیان اپنی زندگی قید کر لی ہے۔ ہم زمین سے دور ہو چکے ہیں، جس کا نتیجہ جسمانی و ذہنی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ارتھنگ کوئی پیچیدہ طریقہ علاج نہیں بلکہ ایک سادہ طرزِ زندگی ہے۔ روزانہ صرف 20 سے 30 منٹ ننگے پاؤں گھاس یا مٹی پر چلنے سے آپ اپنے جسم کو فطرت کی شفا بخش توانائی سے جوڑ سکتے ہیں۔
جہاں سائنسی تحقیق ہمیں ارتھنگ کے طبی فوائد سے روشناس کرتی ہے، وہیں برصغیر کی صدیوں پرانی روایات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زمین جو نہ صرف ہمیں زندگی دیتی ہے بلکہ ہماری صحت کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کی مٹی سے محبت کی جائے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبردوست ممالک کے دورے: وزیراعظم ایران کے بعد آذربائیجان پہنچ گئے قومی وقار: 28 مئی کی میراث جوہری بازدارندگی اور سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی پی۔ٹی۔آئی اور ‘معمولِ نو ‘ (NEW NORMAL) معصومیت کا قتل: پاکستان میں بھارت کی پراکسی جنگ گرمی کی لہر فطرت کا انتقام یا انسانوں کی لاپروائی؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭