کیا سن اسکرین کا زیادہ استعمال ہڈیاں ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
بہت زیادہ سن اسکرین کے استعمال کی وجہ سے وٹامن ڈی کی شدید کمی کی شکار ایک چینی خاتون کو ہڈیوں کے فریکچر کا سامنا کرگیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین سخت گرمی میں چہرے کی جلد کو صحت مند کیسے رکھ سکتی ہیں؟
چین کے شہر چینگدو میں ایک اسپتال کے ڈاکٹروں نے حال ہی میں ایک 48 سالہ مقامی خاتون کے غیر معمولی کیس کی اطلاع دی ہے جسے بظاہر صرف اتفاقیہ طور پر بستر پر کروٹ بدلنے سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کا سامنا کرنا پڑگیا۔
ڈاکٹر لانگ شوانگ کے مطابق اسپتال میں کیے گئے ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ نامعلوم خاتون کے وٹامن ڈی کی سطح انتہائی کم تھی جس سے ہڈیوں کے ٹوٹنے میں تیزی آئی اور شدید آسٹوپوروسس شروع ہو گیا۔
مزید تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ مریضہ بچپن سے ہی سورج کی روشنی سے گریز کرتی تھیں اور شاذ و نادر ہی چھوٹی بازو والی شرٹ پہن کر گھر سے نکلتی تھیں۔ وہ باہر جاتے وقت ہمیشہ سن اسکرین لگاتی تھیں۔
مزید پڑھیے: چہرے کی جلد صحت مند کیسے؟ لیڈی ڈیانا کی بہو نے سارے راز کھول دیے
خاتون کا کیس دوسرے سن اسکرین کے شوقین افراد کے لیے ایک انتباہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو اس کا زیادہ استعمال کر رہی ہوں اوراپنی ہڈیوں کی صحت متاثر کر رہی ہوں۔
گوانگ ژو میڈیکل یونیورسٹی کے دوسرے منسلک اسپتال کے آرتھوپیڈک اسپائن سرجری کے شعبے کے ڈائریکٹر جیانگ ژاؤ بنگ نے کہا کہ اکثر لوگ خود کو سورج سے بچانے کے لیے اپنے پورے جسم کو سر سے پاؤں تک ڈھانپتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعی غیر صحت بخش عمل ہے۔
جیانگ ژاؤ بنگ نے بتایا کہ ہمارے جسم میں تمام ہڈیوں کی ہر 10 سال بعد تجدید ہوتی ہے لیکن 30 سال کی عمر سے ہر سال 0.                
      
				
مزید پڑھیں: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
ان کا کہنا تھا کہ کیلشیم کی کم مقدار سورج کی روشنی میں کمی، اور وٹامن ڈی کی کمی یہ سب کیلشیم کے جذب میں رکاوٹ ہیں۔
اگرچہ عام طور پر سن اسکرین اور سورج سے بچاؤ کے اپنے فوائد ہیں جن سے جلد کے کینسر اور صحت کے دیگر سنگین مسائل کے خطرات کم ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس معاملے میں زیادتی کربیٹھتے ہیں اور اس طرح خود کو دیگر مسائل کا شکار بنا لیتے ہیں۔
سورج کی روشنی جسم کو وٹامن ڈی کے حوالے سے مدد دینے میں بہت اہم ہے، جو کہ ہڈیوں کی صحت اور کیلشیم کے جذب کے لیے ضروری ہے، اس لیے طویل عرصے تک سورج کی روشنی میں نہ رہنے سے قوت مدافعت اور ہڈیوں کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بدلتے موسم میں جلد کا خیال کیسے رکھا جائے؟
ڈاکٹر لونگ شوانگ کی طرف سے پیش کیا گیا کیس چینی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ چینی خواتین کی سماجی اصولوں کے مطابق صاف جلد کی خواہش صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سن اسکرین کریم سورج سے بچاؤ سورج کی روشنی کیلشیم وٹان ڈیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سورج سے بچاؤ سورج کی روشنی کیلشیم وٹان ڈی سورج کی روشنی کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت
مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جہاں عالمی معاشروں میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں وہاں ذرایع ابلاغ اور خبریں بھی ایک نئے اور پیچیدہ عہد میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ’’خبر‘‘ محض اطلاع نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل تشکیل بن چکی ہے۔ آج کسی خبر کی سچائی پر یقین کرنے سے پہلے قاری کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ خبر انسان نے بنائی ہے یا مشین نے؟
مصنوعی ذہانت یعنی اے ائی (Artificial Intelligence) لمحوں میں تصویر، آواز یا وڈیو کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کو درپیش ہے اور جس سے پاکستان بھی اب لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
ڈیجیٹل فریب کی اس نئی دنیا نے کچھ ہی عرصے میں ’’جنریٹو اے آئی‘‘ (Generative AI) نے خبر کے معیار، رفتار اور اعتبار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ChatGPT، Midjourney، Runway، Sora جیسے ٹولز نہ صرف مواد تخلیق کرتے ہیں بلکہ مکمل حقیقت کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کی ایک خطرناک صورت ڈیپ فیک (Deepfake) ہے۔ ڈیپ فیک کے استعمال سے ایسی جعلی وڈیوز بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں۔
مثال کے طور پر 2024کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک ڈیپ فیک آڈیو سامنے آئی جس میں صدر جوبائیڈن کی آواز میں ووٹروں کو پیغام دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعی آواز تھی۔
بھارت میں بھی 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران مشہور شخصیات کی جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں جنھوں نے انتخابی بیانیے کو متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف سیاست دانوں اور بااثر افراد کی ایسی فیک وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر انسان صرف حیران اور پریشان ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آگے کیا ہوگا۔
حالیہ برسوں میں متعدد وڈیوز اور بیانات توڑمروڑ کر پھیلائے گئے۔ کئی مرتبہ تو پرانی وڈیوز کو نئے عنوانات کے ساتھ وائرل کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں اور انتشار پیدا ہوا۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر نہ تو فیکٹ چیکنگ یونٹس ہیں اور نہ ہی ایتھکس کی تربیت ہے۔ نتیجتاً افواہیں خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہ چیلنج دراصل ایک موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا اس ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں اپنائے تو خبر کے حصول کی رفتار، تحقیق اور تجزیے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
دنیا کے بڑے خبررساں ادارے اے آئی کو مددگار ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ نیوز ٹریسر ایک ایسا خودکار ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر خبروں کی اصلیت اور جعلی پن کی جانچ کرتا ہے۔
ایک اور ٹریسر ایسا بھی ہے جو تصاویر وڈیو اور اعداد وشمار کی اے آئی الگورتھم استعمال کر کے تصدیق کرتا ہے۔ پاکستانی ابلاغ کے ادارے بھی اگر چاہیں تو انھی ماڈلز کو اپنا سکتے ہیں۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کس طرح فیک اور اصلی خبر میں تمیز کر سکتا ہے یا اصلی خبر کی تیزرفتار جانچ پڑتال کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ہر نیوز روم میں فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کیا جائے۔صحافیوں کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل ایتھکس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔اگر کوئی تصویر یا وڈیو اے آئی سے تیار کی گئی ہو تو اس کی وضاحت لازمی ہو۔
یونیورسٹیوں، میڈیا ریگولیٹرز اور نیوز اداروں کو مل کر ایک قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کا استعمال ذمے داری سے ہو۔پاکستان کی بعض یونیورسٹیوں نے ’’ڈیجیٹل جرنلزم‘‘ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈیول شامل کیے ہیں لیکن یہ ابھی ابتدائی کوششیں ہیں۔
اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہ کی تو مستقبل میں ’’خبر‘‘ شاید انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھے گا۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ خبر کیا ہے؟ بلکہ یہ ہوگا کہ کس نے بنائی؟
مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل امتحان مشین کا نہیں، انسان کے شعور کا ہے۔ خبر کی سچائی، اعتماد اور اخلاقیات کو زندہ رکھنا اب ہماری ذمے داری ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے پاکستان سمیت دنیا کو ایک نئے فکری چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اگر درست سمت میں استعمال ہو تو میڈیا کو زیادہ بااعتماد، تیز اور معیاری بنا سکتی ہے لیکن اگر غفلت برتی تو سچ اور فریب کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے ۔