بیجنگ :پہلا آسیان چین جی سی سی سربراہ اجلاس ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں منعقد ہوا جس سے ایشیا میں علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ۔ چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے کہا کہ کہ آسیان- چین – جی سی سی سربراہی اجلاس تعاون کے میکانزم کے قیام کو علاقائی اقتصادی تعاون میں ایک بڑی جدت کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ نے اس سربراہی اجلاس پر گہری توجہ دی ۔

قطر کے الجزیرہ نے اسے “بے مثال سہ فریقی سربراہی اجلاس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تعمیر کے لئے وقت کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ ملائیشیا کی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق چین اور اس کے شراکت دار زیادہ لچکدار اور جامع علاقائی اقتصادی نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ ترقی کے ثمرات حقیقی معنوں میں سب کے لئے یکساں ہوں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سربراہی اجلاس کا آغاز ملائیشیا نے کیا تھا جو اس سال آسیان کی صدارت سنبھالے ہوئے ہے اور چین نے اس میں فعال طور پر حصہ لیتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں فریق پہلی بار باضابطہ طور پر ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں ، جو علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے اور ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین کے شامل ہونے سے اس علاقائی تعاون کے پلیٹ فارم کو صارفین کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ، مضبوط صنعتی اور سپلائی چین، نیز مشترکہ سرمایہ کاری، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے مواقع میسر آئے ہیں۔اگرچہ چین، آسیان اور جی سی سی کے درمیان دوطرفہ تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سہ فریقی سربراہی اجلاس کے تمام فریقوں اور عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آسیان کے 10 ممالک کے پاس وافر قدرتی وسائل اور نوجوان آبادی ہے، اور جی سی سی کے رکن ممالک کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر اور وافر فنڈز ہیں اور وہ فعال طور پر سرمایہ کاری کے نئے مقامات کی تلاش میں ہیں۔جبکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے ، چین کے پاس نہ صرف مضبوط انڈسٹریل مینوفیکچرنگ ، تکنیکی جدت طرازی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی صلاحیتیں موجود ہیں ، بلکہ ایک بڑی اور کھلی مارکیٹ بھی ہے۔ ایک دوسرے کی تکمیل اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا تعاون کا یہ ماڈل مشترکہ ترقی کے لئے ایک وسیع موقع فراہم کرتا ہے۔ مساوات، باہمی فائدے اور جیت جیت پر مبنی تعاون کی خصوصیت کے ساتھ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کے معنی کی واضح ترجمانی کرتا ہے، اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لئے فائدہ مند تعاون کا ایک نیا ماڈل بھی قائم کرتا ہے.

سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم لی چھیانگ نے سہ فریقی تعاون میں اضافے کے لیے “تین مثالی ماڈلز کی تجویز پیش کی جن میں بین العلاقائی کھلے پن کا ماڈل ، کراس ڈیولپمنٹ اسٹیج تعاون کا ماڈل اور بین الثقافتی انضمام کا ماڈل شامل ہیں ۔ یہ وژن مستقبل کے سہ فریقی تعاون کی راہ متعین کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ تعاون کے ماڈلز کو عملی جامہ پہنایا جائے اور تعاون کو مزید گہرا اور مستحکم کیا جائے ۔ متعدد بین الاقوامی میڈیا رپورٹس سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک موجودہ افراتفری والی بین الاقوامی صورتحال اور سست عالمی اقتصادی ترقی کے تناظر میں اس سہ فریقی تعاون کے مستقبل کے بارے میں توقعات سے بھر پور ہیں ۔ چین، آسیان ممالک اور جی سی سی کی مجموعی معیشت 24.87 ٹریلین امریکی ڈالر ہے اور اس کی کل آبادی 2.15 بلین ہے اور یہ دنیا کی کل معاشی مالیت اور آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتا ہے ۔اس تعاون سے پیدا ہونے والا مجموعی اثر بھی انتہائی اہم ہو گا ۔

ملائیشین نیوز ایجنسی نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی شراکت داری، جو نظریے کے بجائے عملی تعاون پر مبنی ہے، عالمی معاشی منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہے۔چین نے ہمیشہ کھلے پن کے ساتھ دنیا کا استقبال کیا ہے ، علاقائی تعاون اور عالمی اقتصادی ترقی کے لئے مزید مواقع پیدا کئے ہیں اور اپنی اعلی معیار کی ترقی کے ذریعے علاقائی تعاون میں نئی قوت محرکہ پیدا کی ہے.اس سہ فریقی سربراہ اجلاس نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، آسیان کنکٹیویٹی ماسٹر پلان 2025 اور جی سی سی وژن 2030 کے باہمی انضمام کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم لی چھیانگ نے سربراہی اجلاس میں اپنی تقریر میں کہاکہ سہ فریقی تعاون “ایک متحرک اقتصادی زون اور ترقی کے مرکز کو جنم دے گا “۔ بین العلاقائی تعاون کے اس جدید ماڈل نے تمام فریقوں کے درمیان قریبی روابط اور تعاون پیدا کیا ہے جس سے نہ صرف شراکت داروں کی اپنی اپنی معاشی خوشحالی میں انہیں مدد ملے گی بلکہ ایشیا سمیت دنیا بھر میں امن اور ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: علاقائی تعاون کے سہ فریقی تعاون سربراہی اجلاس سربراہ اجلاس بین الاقوامی اور جی سی سی تعاون میں کرتا ہے ترقی کے چین کے کے لئے ا سیان کہا کہ

پڑھیں:

ایلون مسک کے سربراہ نے ”ڈوج“کی قیادت سے الگ ہو نے کا اعلان کردیا

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 29 مئی ۔2025 ) امریکی حکومت کے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی ایلون مسک کے سربراہ نے ”ڈوج“کی قیادت سے الگ ہو نے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بعد بھی محکمہ چلتا رہے گا دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیسلا اور سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس کمپنی کے مالک ایلون مسک کو خصوصی سرکاری ملازم کا درجہ دے کر انھیں کفایت شعاری مہم یعنی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈوج) کی قیادت سونپی تھی.

(جاری ہے)

خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر وہ ہر سال 130 دن کام کر سکتے ہیں ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے وقت سے اگر حساب لگایا جائے تو مسک کے عہدے کی میعاد مئی کے آخر میں ختم ہو رہی ہے”ایکس “پر جاری ایک پیغام میں ایلون مسک نے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی ذمہ داری سونپنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا. ان کا کہنا تھا کہ جیسے ایک خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر میرا مقررہ وقت ختم ہو رہا ہے میں فضول خرچی کو کم کرنے کے کا موقع دینے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا مسک نے امید ظاہر کی کہ ڈوج کا مشن وقت کے ساتھ مضبوط ہو گا کیونکہ یہ پوری حکومت کے کام کرنے کا طریقہ کار بنتا جائے گا.

حکومتی معاملات میں ایلون مسک کا کردار عارضی تھا اور ان کی رخصتی غیر متوقع نہیں تاہم یہ ایسے موقع پر ہوئی ہے جب انھوں نے ٹرمپ کے بجٹ بل پر مایوسی کا اظہار کیا ہے نئے بل میں کئی کھرب ڈالرز کی ٹیکس چھوٹ اور دفاعی بجٹ میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے. سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس بل سے وفاقی خسارے میں اضافہ ہوگا اور ڈوج کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا ڈوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدائی طور پر مسک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے بجٹ میں کم از کم دو ہزار ارب ڈالرز کی بچت کریں گے، بعد ازاں انہوں نے یہ ہدف کم کر کے 150 ارب ڈالرز کر دیا تھا.

ایک اندازے کے مطابق ڈوج کی کفایت شعاری مہم کے تحت 23 لاکھ امریکی وفاقی سویلین ملازمین میں سے دو لاکھ 60ہزار کو یا تو اپنی ملازمتیں چھوڑنا پڑیں یا انہوں ریٹائرمنٹ ڈیل قبول کر لیں رپورٹ کے مطابق ڈوج کی کفایت شعاری مہم سے اہداف سے کئی سو گنا کم بچت ہونے جبکہ ملازمین کی جانب سے عدالتی کاروائیوں کی مد میں بچت سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہونے کا امکان ہے. 

متعلقہ مضامین

  • چین نے ہر نازک وقت میں پاکستان کا چٹان کی مانند ساتھ دیا، احسن اقبال
  • بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی علاقائی حکمت عملی
  • کشمیر و فلسطین پر قبضے علاقائی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں، اسحاق ڈار
  • سی پیک کو وسطی ایشیا تک توسیع دینا چاہتے ہیں،وزیراعظم
  • ایلون مسک کے سربراہ نے ”ڈوج“کی قیادت سے الگ ہو نے کا اعلان کردیا
  • چین نے تین فریقی تعاون  کو مسلسل فروغ دینے کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں، چینی میڈیا
  • چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر کا خواہاں ہے، چینی وزیراعظم
  • چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر کا خواہاں ہے، چینی وزیر اعظم
  • آسیان چین اور جی سی سی سربراہ اجلاس سے سہ فریقی تعاون کا ایک نیا باب کھل گیا، چینی وزیراعظم