آسیان، چین، جی سی سی سربراہ اجلاس سےبین العلاقائی تعاون میں ایک نئے باب کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
بیجنگ :پہلا آسیان چین جی سی سی سربراہ اجلاس ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں منعقد ہوا جس سے ایشیا میں علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ۔ چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے کہا کہ کہ آسیان- چین – جی سی سی سربراہی اجلاس تعاون کے میکانزم کے قیام کو علاقائی اقتصادی تعاون میں ایک بڑی جدت کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ نے اس سربراہی اجلاس پر گہری توجہ دی ۔
قطر کے الجزیرہ نے اسے “بے مثال سہ فریقی سربراہی اجلاس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تعمیر کے لئے وقت کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ ملائیشیا کی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق چین اور اس کے شراکت دار زیادہ لچکدار اور جامع علاقائی اقتصادی نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ ترقی کے ثمرات حقیقی معنوں میں سب کے لئے یکساں ہوں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سربراہی اجلاس کا آغاز ملائیشیا نے کیا تھا جو اس سال آسیان کی صدارت سنبھالے ہوئے ہے اور چین نے اس میں فعال طور پر حصہ لیتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں فریق پہلی بار باضابطہ طور پر ایک ہی پلیٹ فارم پر ہیں ، جو علاقائی تعاون کے ایک نئے مرحلے اور ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے۔ چین کے شامل ہونے سے اس علاقائی تعاون کے پلیٹ فارم کو صارفین کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ، مضبوط صنعتی اور سپلائی چین، نیز مشترکہ سرمایہ کاری، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے مواقع میسر آئے ہیں۔اگرچہ چین، آسیان اور جی سی سی کے درمیان دوطرفہ تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سہ فریقی سربراہی اجلاس کے تمام فریقوں اور عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آسیان کے 10 ممالک کے پاس وافر قدرتی وسائل اور نوجوان آبادی ہے، اور جی سی سی کے رکن ممالک کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر اور وافر فنڈز ہیں اور وہ فعال طور پر سرمایہ کاری کے نئے مقامات کی تلاش میں ہیں۔جبکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے ، چین کے پاس نہ صرف مضبوط انڈسٹریل مینوفیکچرنگ ، تکنیکی جدت طرازی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی صلاحیتیں موجود ہیں ، بلکہ ایک بڑی اور کھلی مارکیٹ بھی ہے۔ ایک دوسرے کی تکمیل اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا تعاون کا یہ ماڈل مشترکہ ترقی کے لئے ایک وسیع موقع فراہم کرتا ہے۔ مساوات، باہمی فائدے اور جیت جیت پر مبنی تعاون کی خصوصیت کے ساتھ ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کے معنی کی واضح ترجمانی کرتا ہے، اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لئے فائدہ مند تعاون کا ایک نیا ماڈل بھی قائم کرتا ہے.
سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم لی چھیانگ نے سہ فریقی تعاون میں اضافے کے لیے “تین مثالی ماڈلز کی تجویز پیش کی جن میں بین العلاقائی کھلے پن کا ماڈل ، کراس ڈیولپمنٹ اسٹیج تعاون کا ماڈل اور بین الثقافتی انضمام کا ماڈل شامل ہیں ۔ یہ وژن مستقبل کے سہ فریقی تعاون کی راہ متعین کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ تعاون کے ماڈلز کو عملی جامہ پہنایا جائے اور تعاون کو مزید گہرا اور مستحکم کیا جائے ۔ متعدد بین الاقوامی میڈیا رپورٹس سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک موجودہ افراتفری والی بین الاقوامی صورتحال اور سست عالمی اقتصادی ترقی کے تناظر میں اس سہ فریقی تعاون کے مستقبل کے بارے میں توقعات سے بھر پور ہیں ۔ چین، آسیان ممالک اور جی سی سی کی مجموعی معیشت 24.87 ٹریلین امریکی ڈالر ہے اور اس کی کل آبادی 2.15 بلین ہے اور یہ دنیا کی کل معاشی مالیت اور آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتا ہے ۔اس تعاون سے پیدا ہونے والا مجموعی اثر بھی انتہائی اہم ہو گا ۔
ملائیشین نیوز ایجنسی نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی شراکت داری، جو نظریے کے بجائے عملی تعاون پر مبنی ہے، عالمی معاشی منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہے۔چین نے ہمیشہ کھلے پن کے ساتھ دنیا کا استقبال کیا ہے ، علاقائی تعاون اور عالمی اقتصادی ترقی کے لئے مزید مواقع پیدا کئے ہیں اور اپنی اعلی معیار کی ترقی کے ذریعے علاقائی تعاون میں نئی قوت محرکہ پیدا کی ہے.اس سہ فریقی سربراہ اجلاس نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، آسیان کنکٹیویٹی ماسٹر پلان 2025 اور جی سی سی وژن 2030 کے باہمی انضمام کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم لی چھیانگ نے سربراہی اجلاس میں اپنی تقریر میں کہاکہ سہ فریقی تعاون “ایک متحرک اقتصادی زون اور ترقی کے مرکز کو جنم دے گا “۔ بین العلاقائی تعاون کے اس جدید ماڈل نے تمام فریقوں کے درمیان قریبی روابط اور تعاون پیدا کیا ہے جس سے نہ صرف شراکت داروں کی اپنی اپنی معاشی خوشحالی میں انہیں مدد ملے گی بلکہ ایشیا سمیت دنیا بھر میں امن اور ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: علاقائی تعاون کے سہ فریقی تعاون سربراہی اجلاس سربراہ اجلاس بین الاقوامی اور جی سی سی تعاون میں کرتا ہے ترقی کے چین کے کے لئے ا سیان کہا کہ
پڑھیں:
او آئی سی تعاون اجلاس، اسلاموفوبیا کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا: اسحاق ڈار
نیویارک (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی تعاون بہت ضروری ہے۔ عالمی امن کے قیام کیلئے اقوام متحدہ میں او آئی سی تعاون اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم نے اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ کے درمیان تعاون کو مزید فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ انسانی بحران سے نمٹنے اور عالمی امن کیلئے او آئی سی اور اقوام متحدہ کا تعاون اہم ہے، تاہم اس کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینا ہوگا۔ اسلامو فوبیا کے خطرات کو روکنے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت اعزاز ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی بین الحکومتی تنظیم ہے اور پاکستان او آئی سی کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں اسحاق ڈار نے فلسطینی مسئلے کو اقوام متحدہ کی ساکھ اور اثر کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عالمی برادری فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہ ماہی مباحثے کی صدارت کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطینی مسئلے پر تفصیلی خطاب کیا۔ اس مباحثے کا موضوع مشرق وسطیٰ کی صورتحال بشمول فلسطینی مسئلہ تھا جس میں اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید مذمت کی۔ اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں، سکولوں، اقوام متحدہ کی تنصیبات، اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کے بھی خلاف ہیں۔ اسحاق ڈار نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے تاکہ فلسطینی عوام کی تکالیف کم کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاریاں بند اور ہنگامی انسانی بنیاد پر امداد فوری طور پر غیر مشروط بحال کی جائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل شام کی گولان کی پہاڑیوں اور دیگر رقبے سے بھی پیچھے ہٹ جائے اور 1967ء کے وقت کی سرحدیں بحال کی جائیں اور اسرائیل یہودی آبادیوں کو ملانے کے منصوبے سے بھی باز رہے۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے دورہ نیویارک میں بینکاری، سرمایہ کاری اور آئی ٹی ماہرین سے ملاقات کی۔ ملاقات میں اسحاق ڈار نے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے ایس آئی ایف سی کے کردار پر زور دیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی سہولت کاری کو تیز کیا جا رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں اسحاق ڈار نے فِن ٹیک، ڈیجیٹل بینکنگ، انفراسٹرکچر میں پاکستان کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالی۔ ملاقات میں مورگن سٹینلی، بینک آف امریکہ، بی این پی پریباس، جے پی مورگن اور گولڈمین سکس کے ماہرین موجود تھے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق شرکاء نے پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اظہار دلچسپی اور باہمی معاشی روابط کو فروغ دینے پر زور دیا۔