پاکستان یو این امن مشنز کے لئے فوجی تعاون کرنے والا سرکردہ ملک ہے، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
ائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈارنے کہا ہے کہ پاکستان یو این امن مشنز کے لئے فوجی تعاون کرنے والا سرکردہ ملک ہے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے امن دستوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے دستے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا کے کئی حصوں میں لگن اور حوصلے کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں، پاکستان اقوام متحدہ کے امن دستوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے امن دستوں کی لگن، حوصلے اور خدمات کو تسلیم کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری کے ساتھ شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دن اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل بڑی تعداد میں اہلکاروں کی جانب سے اپنی ڈیوٹی کے دوران دی گئی جانوں کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بھی ایک اہم یاد دہانی ہے جن میں پاکستان کے 181 بہادر امن فوجی بھی شامل ہیں۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ برسوں کے دوران پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز کے لئے فوجی تعاون کرنے والا ایک سرکردہ ملک رہا ہے، امن فوج میں دو لاکھ 35 ہزار سے زیادہ پاکستانی مرد اور خواتین اہلکار دنیا کے کئی حصوں میں امتیاز کے ساتھ خدمات انجام دے چکے اور دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے قدیم ترین امن مشن میں سے ایک اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ ان انڈیا اینڈ پاکستان (یو این ایم او جی آئی پی) کا میزبان بھی ہے۔
نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈارنے کہا کہ خطے میں حالیہ پیش رفت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کے منصفانہ حل کے ساتھ ساتھ (یو این ایم او جی آئی پی) کی موجودگی اور کردار کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت کو تقویت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو کثیر جہتی خطرات کا سامنا ہے، اقوام متحدہ کی امن فوج بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور موثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس دن کی یاد کے موقع پر اقوام متحدہ کی امن فوج کو عصری اور مستقبل کے چیلنجز بشمول تکنیکی جدت طرازی اور علاقائی شراکت داری کو مضبوط کرنا ،سے نمٹنے کے لئے سیاسی عزم کی تجدید کی ضرورت ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور جمہوریہ کوریا نے 15 سے 16 اپریل کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی وزارتی تیاری کے تیسرے اجلاس کی ”محفوظ اور زیادہ موثر امن قائم کرنے کی طرف: ٹیکنالوجی کا استعمال اور مربوط نقطہ نظر“ کے موضوع کے تحت مشترکہ میزبانی کی۔
اجلاس کے نتائج اس مقصد کے حصول کے اقدامات کی رفتار تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال دنیا کے لئے اقوام متحدہ کے امن مشن کے لئے اپنے مضبوط عزم کو برقرار رکھتا ہے اور رکھے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی امن فوج اقوام متحدہ کے امن انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کہ پاکستان کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کا یمن پر گہرا اثر، ہینز گرنڈبرگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ہینز گرنڈبرگ نے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نازک صورتحال ملک پر بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے جہاں امن و استحکام کے لیے خطے میں بڑے تنازعات پر قابو پانا ضروری ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کا غیرحل شدہ تنازع ایک ایسی فالٹ لائن کے مترادف ہے جس سے پیدا ہونے والے جھٹکے ملکی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور اس سے موجودہ علاقائی مخاصمتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام سے یمن میں تقسیم بھی بڑھتی جا رہی ہے اور پائیدار امن کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ Tweet URLہینز گرنڈبرگ نے اسرائیل اور انصاراللہ (حوثیوں) کے مابین تشویشناک اور خطرناک کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خطے میں عدم استحکام کے اسباب پر قابو پانے تک یمن میں امن عمل کی صورتحال بدستور نازک رہے گی۔
(جاری ہے)
تشدد کا موجودہ سلسلہ یمن کو اس عمل سے مزید دور لے جا رہا ہے جو طویل مدتی استحکام اور معاشی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔یو این کے خلاف جارحیتنمائندہ خصوصی نے حالیہ دنوں صنعا اور حدیدہ میں انصاراللہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے عملے کے 22 ارکان کی ناجائز گرفتاری کو اقوام متحدہ کے خلاف کھلی کشیدگی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ حراستیں، اقوام متحدہ کے دفاتر پر دھاوا بولنا، اس کی املاک کو قبضے میں لینا اور اس طرح امن کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں اور یمن عوام کو امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا ناقابل قبول ہے
ان کا کہنا تھا کہ خانہ جنگی کے نتیجے میں یمن کے ہزاروں لوگ زیرحراست ہیں اور اس تکلیف دہ مسئلے کو حل کرنے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔
مذاکرات کی اہمیتہینز گرنڈبرگ نے کہا کہ اگرچہ یمن میں نسبتاً استحکام برقرار ہے، لیکن الضالع، مآرب اور تعز جیسے علاقوں میں حالیہ عسکری سرگرمیاں اس امر کا اشارہ ہیں کہ اگر کسی بھی فریق سے کوئی غلطی ہوئی تو ملک دوبارہ مکمل جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ایسی کسی جنگ کے نتائج یمن اور پورے خطے کے لیے نہایت تباہ کن ہوں گے۔
معاشی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کی اقتصادی ترقی باہمی تعاون کو فروغ دینے، قومی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے اور ایک جامع قومی تصور کو اپنانے کی بدولت ہی ممکن ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یکطرفہ فیصلے شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور مکالمہ اختلافات کو ختم کرنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
بدترین غذائی قلتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اقوامِ متحدہ کی کارروائیوں کو درپیش تحفظ کے مسائل، معاشی تباہی اور خانہ جنگی نے یمن کو دنیا میں شدید غذائی قلت کا شکار تیسرا بڑا ملک بنا دیا ہے۔
آئندہ سال فروری سے پہلے مزید 10 لاکھ افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں جبکہ ایک کروڑ 70 لاکھ یمنی شہری پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور 20 فیصد گھرانوں میں کسی نہ کسی فرد کو روزانہ فاقہ کرنا پڑتا ہے۔
امدادی کاموں میں مشکلاتانہوں نے کونسل کو بتایا کہ امدادی وسائل کی کمی اور مشکل حالات کار کے باوجود امدادی کارکنوں نے ضرورت مند لوگوں کو ہرممکن مدد پہنچائی ہے۔
تاہم، موجودہ حالات میں زندگیوں کو تحفظ دینے اور پائیدار بہتری کی بنیاد رکھنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کرنا ممکن نہیں رہا۔انہوں نے اقوامِ متحدہ کے عملے کی حراستوں کو نہایت پریشان کن اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یمن کے لوگوں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے نہ تو بھوکوں کو کھانا ملے گا، نہ بیماریوں کا علاج ہو گا اور نہ ہی نقل مکانی کرنے والوں کو تحفظ ملے گا۔
ٹام فلیچر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے عملے کو رہا کیا جائے، ادارے کی عمارتوں پر قبضہ چھوڑا جائے اور امدادی تنظیموں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کو مالی وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی بھوک کو یمن کا مستقبل متعین کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔