Express News:
2025-07-23@22:15:56 GMT

افغان طالبان کمانڈر کا بیان

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

افغان طالبان کے ایک کمانڈر کا بیان آیا ہے کہ امیر کے حکم کے خلاف پاکستان میں لڑنا جائز نہیں، اس کو فساد تصور کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاد کے نام پر حملے کرنے والے گروہ شریعت اور افغان امارات کے نافرمان ہیں۔

افغان قیادت پاکستان نہ جانے کا حکم دے چکی ہے۔ افغان طالبان کے ایک کمانڈر کی جانب سے یہ پیغام یقیناً افغان طالبان کی پالیسی میں ایک بڑا شفٹ ہے تاہم یہ بیان ابھی افغان طالبان کے ایک جونئیر کمانڈر کی طرف سے آیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغان سربراہ کی جانب سے نہ صرف یہ بیان آئے گا بلکہ فتویٰ بھی آئے گا۔ افغان طالبان کی شوریٰ بھی ایسا ہی ایک بیان جاری کرے گی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بالخصوص ٹی ٹی پی کے تمام دھڑوں نے افغان طالبان کی نہ صرف بیعت کی ہوئی ہے بلکہ ان کی اطاعت بھی کی ہوئی ہے۔

عمومی رائے یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے افغان طالبان کے امیر کی بات سے انکار ممکن نہیں تاہم میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے کہ ایک سیٹی بجائی جائے گی اور لڑائی رک جائے گی۔ لیکن اگر افغان طالبان انھیں افغانستان میں پناہ گاہیں دینا بند کر دیں اور ان پر یہی دباؤ ڈالیں کہ اگر ہمارے پاس رہنا ہے تو پھر لڑائی بند کریں تو یقیناً ان کے لیے لڑائی چلانا اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔

اگر آپ کویاد ہو تو جب گزشتہ سال پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف افغانستان گئے تھے تو یہ تجویز زیر غور آئی تھی کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے بارڈر سے دور کسی علاقہ میں بسا دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ تنازعہ بھی سامنے آیا تھا کہ افغان طالبان نے انھیں پاکستان کے بارڈر سے دور آباد کرنے کے لیے ایک خطیر رقم کا بھی مطالبہ کیا تھا۔لیکن پاکستان کا سوال تھا کہ اس کی بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوبارہ پاکستان کے بارڈر کے قریب نہیں آجائیں گے۔

انھیں جہاں پاکستان کی سرحد سے دور آباد کیا جائے گا وہ وہیں رہیں گے۔ اس کا شائد افغان طالبان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی لیے ڈیڈ لاک ہوگیا۔ اور ہم نے پھر ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں تیزی بھی دیکھی۔ ایک تاثر یہی ہے کہ پھر افغان طالبان نے ان کو کھلی چھٹی دے دی ہے وسائل بھی دیے اور سہولت کاری بھی دی۔

لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ سے پہلے ہی پاکستان کے نائب وزیر خارجہ ایک بڑے وفد کے ساتھ افغانستان گئے تھے۔ خواجہ آصف کے دورے میں بات طے نہیں ہو سکی تھی۔ اس لیے ہم نے افغانستان کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات میں کمی دیکھی۔ ہم نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کیا۔ لیکن پھر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ایک بڑے وفد کے ساتھ گئے تو تجارت دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ہوا، تعلقات نارمل ہوتے نظر آئے۔

اس دورہ کے دوران افغان طالبان کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جس کے بعد تجارت کھلنے کا بھی اعلان ہوا۔ اس کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ہم نے بھارت کو افغانستان پر غیر معمولی توجہ دیتے ہوئے دیکھا۔ بھارت دنیا کے بڑے ممالک کی بجائے افغانستان کی طرف متوجہ نظر آیا۔ اس لیے پاک بھارت جنگ بندی کے بعد بھارت کی افغانستان کو غیر معمولی توجہ پاکستان کے لیے کسی خطرہ کی گھنٹی سے کم نہیں تھی۔

اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے چین نے بیجنگ میں ایک سہ فریقی مذاکرات کا بندوبست کیا۔ جہاں پاکستان افغانستان اور چین کے وزراء خارجہ اکٹھے ہوئے۔ وہاں پاک چین مذاکرات بھی ہوئے۔ پاک افغانستان مذاکرات بھی ہوئے اور پھر چین افغانستان اور پاکستان کے وزرا خارجہ اکٹھے بھی بیٹھے۔ یہاں بھی پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردی کو روکنے میں تعاون کی بات کی۔ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال روکنے کی بات کی گئی۔

بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال سے روکنے کی بات کی گئی۔ بیجنگ میں پاکستان اور چین نے مل کر افغانستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ بھارت سے دور رہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ چین افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور امریکا کی جانب سے افغانستان کی امداد بند ہونے کے بعد افغانستان کا چین پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ اس موقع پر افغانستان چین کو ناراض نہیں کر سکتا۔ اس لیے چین میں یہ مذاکرات افغانستان کے لیے واضع پیغام تھے۔

بہر حال اب افغان طالبان کے ایک کمانڈر کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کو پہلی دفعہ واضع پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد جائز نہیں ہے۔ میں اسے افغان طالبان کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ جس کے اس خطے پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

یہ پاکستان کی ایک بہت بڑی فتح ہے۔ یہ صرف سفارتی فتح نہیں ہے۔ جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے تو ہم نے افغانستان میں سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ جو بھی افغانستان کو ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان کسی بھی بڑے اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔

اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون بڑھتا ہے تو دونوں ممالک کے لیے بہترین ہے۔ افغانستان اور پاکستان مل کر تجارت اور معاشی تعاون کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون افغانستان کے لیے دیرپا ترقی کا باعث بنے گا۔ شائد افغانستان کو سمجھ آگئی ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے پاکستان کے ساتھ چلنے میں فائدہ ہے۔

شائد افغانوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان کی مخالفت کی بجائے پاکستان سے محبت میں ان کا فائدہ ہے۔ جس بھارت کے سحر میں وہ گرفتار نظر آتے ہیں وہ ایک بھی افغان کو ویزہ دینے اور کسی بھی قسم کا معاشی تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اگر افغانستان کی طالبان حکومت کو دنیا میں ایک پرامن حکومت کے طورپر خود کو منوانا ہے تو دہشت گردی کی سہولت کاری کی پالیسی ختم کرنا ہوگی۔ اسی میں افغانستان کی بھلائی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان قیادت کو یہ بات سمجھ آگئی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف استعمال افغان طالبان کے ایک افغان طالبان کی افغانستان اور افغانستان کی افغانستان کے کی جانب سے ان کے لیے کی بات کی نے افغان ٹی ٹی پی کے ساتھ میں ایک کے بعد اس لیے

پڑھیں:

جرمنی نے درجنوں عراقی شہریوں کو ملک بدر کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) مشرقی جرمن ریاست تھورنگیا کی وزارتِ انصاف کے مطابق، ملک بدر کیے گئے تمام افراد ''تنہا مرد‘‘ تھے جنہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وزارت نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ افراد ماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اس ملک بدری کے عمل میں سات وفاقی ریاستیں اور وفاقی پولیس شامل تھیں۔

ڈی پی اے نیوز ایجنسی کے فوٹوگرافر کے مطابق، مسافروں کو پولیس کی گاڑیوں اور ہوائی اڈے کی بسوں کے ذریعے جہاز تک لے جایا گیا، اور ہر ایک کو انفرادی طور پر پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں طیارے میں سوار کرایا گیا۔

تھورنگیا کی وزیرِ انصاف بیاتے مائسنر، جو حکمران کرسچن ریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا، ''ہمارا پیغام واضح ہے: جو کوئی بھی رہائشی حق نہیں رکھتا، اسے ہمارے ملک سے جانا ہو گا۔

(جاری ہے)

‘‘

اس سے قبل جمعہ کو، جرمنی نے 81 افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجا، یہ چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے تحت ایسی پہلی ملک بدری تھی۔

افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا دوبارہ آغاز

جرمن وزارت داخلہ نے جمعے کے روز تصدیق کی تھی کہ 81 افغان باشندوں کو لیپزگ ایئرپورٹ سے ایک پرواز کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔

برلن حکومت نے کہا کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت کے بعد مزید افغان شہریوں کی ملک بدری کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ جرمنی نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا البتہ اس کے دو سفارت کاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

برلن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

جرمنی کی ملک بدریوں سے متعلق پالیسی

تقریباً 10 ماہ قبل، جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغان شہریوں کی ملک بدری دوبارہ شروع کی تھی۔ اس وقت کے چانسلر اولاف شولس نے مسترد شدہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے عمل کو تیز کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

ان کے جانشین فریڈرش میرس نے فروری 2025 کے انتخابی مہم میں سخت امیگریشن پالیسی کو بنیادی نکتہ بنایا۔

جرمنی کو اس فیصلے پر تنقید کا سامنا بھی ہے، کیونکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رپورٹ ہو رہی ہیں، اور طالبان سے مذاکرات کو بھی متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ لوگوں کو افغانستان واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ''ہم افغانستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو دیکھ رہے ہیں۔

‘‘

کابل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ''زمین پر حالات ابھی واپسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘‘

ملک بدری کے متعلق برلن کی دلیل

وفاقی جرمن حکومت کی دلیل ہے کہ وہ ''اس اقدام کے ذریعے مخلوط حکومت کے معاہدے میں طے شدہ ایک اہم وعدے پر عمل کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا آغاز ان افراد سے کیا جائے گا جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں یا سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔

‘‘

ادھر جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا، ''حکومت نے جرائم کے مرتکب افراد کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور یہ کام صرف ایک پرواز سے پورا نہیں ہو گا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ طے
  • پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ، دستخط بھی ہوگئے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پاگیا
  • کرم میں طالبان کی بڑھتی سرگرمیوں کے حوالے سے علامہ سید تجمل الحسینی کی خصوصی گفتگو
  • جرمنی نے درجنوں عراقی شہریوں کو ملک بدر کر دیا
  • افغانستان کے مقامی انجنیئرز کی تیار کردہ بس نمائش کیلیے پیش
  • افغان وزیرخارجہ اگست کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کریگا
  • افغان وزیرخارجہ ملا امیر خان متقی اگست کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کریگا