افغان طالبان کمانڈر کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
افغان طالبان کے ایک کمانڈر کا بیان آیا ہے کہ امیر کے حکم کے خلاف پاکستان میں لڑنا جائز نہیں، اس کو فساد تصور کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاد کے نام پر حملے کرنے والے گروہ شریعت اور افغان امارات کے نافرمان ہیں۔
افغان قیادت پاکستان نہ جانے کا حکم دے چکی ہے۔ افغان طالبان کے ایک کمانڈر کی جانب سے یہ پیغام یقیناً افغان طالبان کی پالیسی میں ایک بڑا شفٹ ہے تاہم یہ بیان ابھی افغان طالبان کے ایک جونئیر کمانڈر کی طرف سے آیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغان سربراہ کی جانب سے نہ صرف یہ بیان آئے گا بلکہ فتویٰ بھی آئے گا۔ افغان طالبان کی شوریٰ بھی ایسا ہی ایک بیان جاری کرے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بالخصوص ٹی ٹی پی کے تمام دھڑوں نے افغان طالبان کی نہ صرف بیعت کی ہوئی ہے بلکہ ان کی اطاعت بھی کی ہوئی ہے۔
عمومی رائے یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے افغان طالبان کے امیر کی بات سے انکار ممکن نہیں تاہم میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے کہ ایک سیٹی بجائی جائے گی اور لڑائی رک جائے گی۔ لیکن اگر افغان طالبان انھیں افغانستان میں پناہ گاہیں دینا بند کر دیں اور ان پر یہی دباؤ ڈالیں کہ اگر ہمارے پاس رہنا ہے تو پھر لڑائی بند کریں تو یقیناً ان کے لیے لڑائی چلانا اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔
اگر آپ کویاد ہو تو جب گزشتہ سال پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف افغانستان گئے تھے تو یہ تجویز زیر غور آئی تھی کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے بارڈر سے دور کسی علاقہ میں بسا دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ تنازعہ بھی سامنے آیا تھا کہ افغان طالبان نے انھیں پاکستان کے بارڈر سے دور آباد کرنے کے لیے ایک خطیر رقم کا بھی مطالبہ کیا تھا۔لیکن پاکستان کا سوال تھا کہ اس کی بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوبارہ پاکستان کے بارڈر کے قریب نہیں آجائیں گے۔
انھیں جہاں پاکستان کی سرحد سے دور آباد کیا جائے گا وہ وہیں رہیں گے۔ اس کا شائد افغان طالبان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی لیے ڈیڈ لاک ہوگیا۔ اور ہم نے پھر ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں تیزی بھی دیکھی۔ ایک تاثر یہی ہے کہ پھر افغان طالبان نے ان کو کھلی چھٹی دے دی ہے وسائل بھی دیے اور سہولت کاری بھی دی۔
لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ سے پہلے ہی پاکستان کے نائب وزیر خارجہ ایک بڑے وفد کے ساتھ افغانستان گئے تھے۔ خواجہ آصف کے دورے میں بات طے نہیں ہو سکی تھی۔ اس لیے ہم نے افغانستان کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات میں کمی دیکھی۔ ہم نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کیا۔ لیکن پھر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ایک بڑے وفد کے ساتھ گئے تو تجارت دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ہوا، تعلقات نارمل ہوتے نظر آئے۔
اس دورہ کے دوران افغان طالبان کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جس کے بعد تجارت کھلنے کا بھی اعلان ہوا۔ اس کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ہم نے بھارت کو افغانستان پر غیر معمولی توجہ دیتے ہوئے دیکھا۔ بھارت دنیا کے بڑے ممالک کی بجائے افغانستان کی طرف متوجہ نظر آیا۔ اس لیے پاک بھارت جنگ بندی کے بعد بھارت کی افغانستان کو غیر معمولی توجہ پاکستان کے لیے کسی خطرہ کی گھنٹی سے کم نہیں تھی۔
اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے چین نے بیجنگ میں ایک سہ فریقی مذاکرات کا بندوبست کیا۔ جہاں پاکستان افغانستان اور چین کے وزراء خارجہ اکٹھے ہوئے۔ وہاں پاک چین مذاکرات بھی ہوئے۔ پاک افغانستان مذاکرات بھی ہوئے اور پھر چین افغانستان اور پاکستان کے وزرا خارجہ اکٹھے بھی بیٹھے۔ یہاں بھی پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردی کو روکنے میں تعاون کی بات کی۔ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال روکنے کی بات کی گئی۔
بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال سے روکنے کی بات کی گئی۔ بیجنگ میں پاکستان اور چین نے مل کر افغانستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ بھارت سے دور رہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ چین افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور امریکا کی جانب سے افغانستان کی امداد بند ہونے کے بعد افغانستان کا چین پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ اس موقع پر افغانستان چین کو ناراض نہیں کر سکتا۔ اس لیے چین میں یہ مذاکرات افغانستان کے لیے واضع پیغام تھے۔
بہر حال اب افغان طالبان کے ایک کمانڈر کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کو پہلی دفعہ واضع پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد جائز نہیں ہے۔ میں اسے افغان طالبان کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ جس کے اس خطے پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
یہ پاکستان کی ایک بہت بڑی فتح ہے۔ یہ صرف سفارتی فتح نہیں ہے۔ جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے تو ہم نے افغانستان میں سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ جو بھی افغانستان کو ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان کسی بھی بڑے اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون بڑھتا ہے تو دونوں ممالک کے لیے بہترین ہے۔ افغانستان اور پاکستان مل کر تجارت اور معاشی تعاون کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون افغانستان کے لیے دیرپا ترقی کا باعث بنے گا۔ شائد افغانستان کو سمجھ آگئی ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے پاکستان کے ساتھ چلنے میں فائدہ ہے۔
شائد افغانوں کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان کی مخالفت کی بجائے پاکستان سے محبت میں ان کا فائدہ ہے۔ جس بھارت کے سحر میں وہ گرفتار نظر آتے ہیں وہ ایک بھی افغان کو ویزہ دینے اور کسی بھی قسم کا معاشی تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اگر افغانستان کی طالبان حکومت کو دنیا میں ایک پرامن حکومت کے طورپر خود کو منوانا ہے تو دہشت گردی کی سہولت کاری کی پالیسی ختم کرنا ہوگی۔ اسی میں افغانستان کی بھلائی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان قیادت کو یہ بات سمجھ آگئی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف استعمال افغان طالبان کے ایک افغان طالبان کی افغانستان اور افغانستان کی افغانستان کے کی جانب سے ان کے لیے کی بات کی نے افغان ٹی ٹی پی کے ساتھ میں ایک کے بعد اس لیے
پڑھیں:
سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر
راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان رجیم کو کہہ دیا ہے اپنی جانب سے ہونے والی دہشتگردی کو ختم کریں۔ پاکستان کی سکیورٹی کا ضامن کابل نہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی کی ضامن مسلح افواج ہیں۔ نہ کسی کی امپیزمنٹ کرتے ہیں نہ ہی کسی کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہیں۔ بھارت پاک آرمی اور ائر فورس سے معرکہ حق میں ہزیمت اٹھانے کے بعد پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی طرح ڈیپ سمندر میں کوئی گھنائونا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ وہ جو بھی کرے گا منہ توڑ جواب ملے گا۔ جب بھارت نے دیکھ لیا کہ زمینی اور فضائی جنگ میں نقصان اٹھانے کے بعد اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا، اس کے دعوے بھی جھوٹ نکلے۔ اب اگر وہ سوچ رہا ہے کہ شاید گہرے سمندر میں کوئی گھنائونا کھیل، کھیل کر اسے ڈینگیں مارنے کا موقع مل سکے گا تو یہ بھارت کی خام خیالی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے زمین، سمندر اور فضاء میں جوکچھ کرنا ہے کرے۔ بھارت جان لے اس بار جواب پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔ اعجاز ملاح کے انکشافات نے بھارت کے مذموم عزائم بتا دیے ہیں کہ اس سے کس طرح پاکستان سے آرمی، نیوی اور ائر فورس کی وردیاں خریدنے کا کہا گیا۔ خود کو امارت اسلامیہ افغانستان کہلانے والی غیر نمائندہ رجیم نے دہشتگرد تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اب سوال اٹھایا جاتا ہے کہ افغانستان میں کب تک عبوری رجیم رہے گی۔ کیا اسے لوئی جرگہ نے قبول کیا ہے۔ افغان عوام کا حق ہے کہ ان کی اپنی نمائندہ حکومت بنے جس میں خواتین سمیت سب کی نمائندگی ہو۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کو موقع دیا ہے۔ دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی نہیں ہوگی۔ افغانستان نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشتگرد پال رکھے ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کے آپریشن کے دوران جو دہشتگرد افغانستان بھاگ گئے تھے اگر افغانستان ان کو پاکستان کے حوالے کر دے تو ہم پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق انہیں خود دیکھ لیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اب سننے میں آیا ہے کہ افغان رجیم ان خوارج کو گلی محلوں میں منتقل کر رہی ہے تاکہ اگر ان کے خلاف پاکستان کارروائی کرے تو افغان رجیم یہ واویلا کرے کہ کولیٹرل ڈیمیج ہوگیا ہے۔ دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کی ثالثی کرنے والوں کو بھی علم ہوگیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہو رہی ہے۔ افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ اہم ہے۔ افغانستان میں منشیات سمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے۔ افغانستان سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان سمگل کی جا رہی ہے۔ پاکستان اپنی سرحدوں اور اپنے عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس سال62ہزار 113 آپریشن کیے۔ 582 فوجی جوان شہید ہوئے۔ حالیہ پاک افغان کشیدگی کے دوران112فتنہ الخوارج ہلاک ہوئے جبکہ حالیہ پاک افغان کشیدگی کے دوران 206 افغان طالبان مارے گئے۔ فتنہ الخوارج کیخلاف آپریشن میں1667دہشت گرد مارے گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ خیبر پی کے کے علاقے خیبر اور تیراہ میں 12ہزار ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت ہوتی ہے۔ 18سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ اس میں منافع ہوتا ہے۔ ان زمینوں کے مالکان مقامی سردار، مشران اور ملک بھی ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر بھی اس کاروبار میں ان کے ساتھ سٹیک ہولڈر ہیں۔ اس کے دوسری طرف افغان علاقہ ننگر ہار ہے جہاں آئس بنتی ہے۔ وہاں سے متھ، حشیش، افیون، ہیروئن، چرس، گردہ سمگل ہوکر آتی ہیں، جہاں اس کی مارکیٹ لگتی ہے افغان طالبان بھی ان سے پیسے لیتے ہیں۔ یہی منشیات ہمارے تعلیمی اداروں میں پہنچا کر ہماری نوجوان نسل کو خراب کیا جارہا ہے۔ خوارج ہر کھیت سے عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں۔ یہ ان خوارج کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پہنچتے ہیں تو ان پر حملے کرتے ہیں۔ وہاں پاک افغان بارڈر پر چوکیوں کیلئے جب کوئی سامان لے جایا جا رہا ہوتا ہے تو اس گاڑی پر بھی حملہ کیا جاتا ہے۔ یہی لوگ فتنہ الخوارج کے خلاف آپریشن کی مخالف کرتے ہیں۔ افغانستان کیلئے محبت جاگ رہی ہے تو آپ وہیں چلے جائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی شاخ ہے۔ اس کے سربراہ نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ بیعت ہے۔ جرائم پیشہ اور دہشت گرد گروپ ملک میں جرائم، سمگلنگ روکنے میں رکاوٹ ہیں۔ پاک افغان سرحد 2600 کلو میٹرطویل ہے جس میں پہاڑ، دریا، نہریں، ندی، نالے بھی شامل ہیں۔ 25 سے 40 کلو میٹر پر ایک چوکی بنتی ہے۔ دو ملکوں کی بارڈر منیجمنٹ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہ واحد بارڈر ہے کہ افغانستان کی طرف سے کوئی منیجمنٹ نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کس پارٹی نے پشاور میں ٹی ٹی پی کا دفتر کھولنے، دہشتگردوں سے مذاکرات کی باتیں کیں اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی اور اس وقت کے پی کے میں کس جماعت کی حکومت تھی۔ اپنے وقتی فائدے پر پاکستان کے مفاد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ ہمارے جوانوں کے سروں کا فٹبال بنا کر کھیلنے والوں سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ گورنر راج سے متعلق فیصلے کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔ جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملہ کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی۔ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ ہم کبھی سیاست میں نہیں آتے نہ سیاستدانوں کی طرح بات کرتے ہیں۔ ہم اپنی بات ڈائریکٹ کرتے ہیں۔ غزہ امن فوج کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہائپر سونک میزائل کے مبینہ تجربے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر ملک میں ڈیویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ رواں سال62113 آپریشن کئے۔ زیادہ تربلوچستان میں ہوئے کیونکہ بلوچستان وسیع رقبہ پر محیط صوبہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانوں کیلئے حسن ظن دکھایا ہے۔ پاکستان کلمہ کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کی طرح ہم نے افغانوں کیلئے حسن ظن دکھایا۔ اب بھی ہم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں۔ طالبان جنہوں نے الیکشن کرائے نہ ہی لوئی جرگہ بلوایا، خود کو امارت اسلامیہ افغانستان کہلانے والے خود جا کر بھارت کی گود میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ افغان رجیم کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد جھوٹا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ روسی ٹینک دکھا کر کہا کہ پاکستان کا ٹینک پکڑ لیا ہے جسے بھارتی میڈیا نے اچھالا۔ بھارتی میڈیا نے تو لاہور میں بندر گاہ بھی دکھا دی تھی اور پھر اس کا مذاق بنا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مدارس کی تعداد2014ء کے نیشنل ایکشن پلان کے بعد ہونے والے سروے میں 48 ہزار تھی اور اب ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ میڈیا کو آزادی ہے، حدود و قیود بھی ہیں۔ مادر پدر آزادی دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ پیمرا سے میڈیا لائسنسوں کا ریکارڈ چیک کرلیں اس میں سب لکھا ہوا ہے۔ یہاں لوگوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے آسٹریلیا میں جزیرے نکال دئیے۔ وہ خود پوچھتے ہیں کہاں ہیں جزیرے۔ امریکی ڈرونز کے ذریعے افغانستان میں حملے کا الزام جھوٹ ہے۔ ہمارا امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں۔ اس طرح کی خبریں افغانستان کا پراپیگنڈا ہے۔ بہتر ہے افغان رجیم مذاکرات سے مسئلہ حل کرے۔ ورنہ ہم دوسرے طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ 2025ء میں 208 آپریشن روزانہ کی بنیاد پر تھے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے سہیل آفریدی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا۔ سہیل آفریدی خیبر پی کے کے چیف منسٹر ہیں۔ فل سٹاپ۔