18 سال سے کم عمر میں شادی ناقابل ضمانت جرم قرار، صدر نے بل پر دستخط کردیے
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے کم عمری کی شادی کی ممانعت سے متعلق اسلام آباد ’کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل‘ پر دستخط کرکے اس کی منظوری دے دی۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوانِ صدر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پر شیئر کیا۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ اور بچوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادیوں کے خاتمے کے لیے تیار کیا گیا بل 27 مئی کو ایوانِ صدر پہنچا تھا، اس سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل کی منظوری دی تھی۔
تاہم، اس اقدام کو معاشرے کے مذہبی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کو ریپ قرار دینا اسلامی قوانین کے مطابق نہیں۔
ایوان صدر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025 کو پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد صدر کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اس قانون کو پاکستان میں بچوں کی شادیوں کے خلاف قانون سازی کی ایک اہم منزل قرار دیا اور کہا کہ مختلف حلقوں کی مزاحمت کے باوجود یہ کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل پر دستخط اصلاحات کے ایک نئے دور کی علامت ہیں، یہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جیت ہے، یہ قانون ایک لمبی اور مشکل جدوجہد کے بعد ممکن ہوا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ بل محض ایک قانون نہیں بلکہ اس عزم کی علامت ہے کہ ہماری بچیوں کو تعلیم، صحت اور خوشحال زندگی کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پارٹی رہنماؤں، دیگر سیاسی جماعتوں، اپوزیشن اور عوام کا شکریہ ادا کیا اور باقی صوبوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی ایسی قانون سازی کی طرف قدم بڑھائیں۔
دوسری طرف، جماعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا جلال الدین نے کہا کہ صدر زرداری کو یہ بل سائن نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ یہ بل نہ صرف شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ہماری سماجی اقدار اور روایات سے بھی متصادم ہے، یہ مغرب کی سازش ہے تاکہ ہمارا خاندانی نظام تباہ کیا جا سکے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجے بغیر خفیہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور کرانا بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم، پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی، جنہوں نے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، نے کہا کہ نابالغ بچیوں کی شادی کے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم شادیوں کے خلاف نہیں، لیکن 13 یا 14 سال کی بچیوں کی شادی اس وقت انصاف کے خلاف ہے جب انہیں ووٹ ڈالنے، قومی شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔
شرمیلا نے 2022 کے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا، جس میں ریاست کو شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
بل میں کیا ہے؟
کم عمری کی شادی کی روک تھا سے متعلق قانون کے مطابق 18 سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قید بامشقت ہوگی، اسی طرح 18 سال کی عمر سے قبل ساتھ رہنےکو بچے سے زیادتی تصور کیا جائےگا، کم عمر دلہن یا دلہےکو شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
قانون کے مطابق بچے کی شادی کے لیے ٹریفکنگ پر7 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا، کم عمر بچے کی شادی میں معاونت پر 3 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔
قانون کے مطابق ایسا نکاح پڑھانے کی ممانعت ہوگی جہاں دلہا یا دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوگی، نکاح خواں یقینی بنائےگا کہ دونوں فریقین کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے ۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی نے کم عمری کی شادی کی ممانعت کا بل منظور کیا تھا، قومی اسمبلی میں یہ بل شرمیلا فاروقی اور سینیٹ میں شیری رحمٰن نے پیش کیا تھا،اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری کی شادی کے بل کو غیر اسلامی قرار دے چکی ،کونسل نے اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر سزاؤں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری کی شادی سال سے کم عمر قومی اسمبلی سال تک قید نے کہا کہ کے مطابق انہوں نے کے خلاف قید اور شادی کی
پڑھیں:
کراچی کو سرسبز بنانے کیلئے جماعت اسلامی کی ایک لاکھ درخت لگانے کی مہم کا آغاز
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ آج لگایا گیا درخت آنے والی نسلوں کی حفاظت ہے، یہ مہم کراچی کی فضا کو بہتر بنانے کی ایک بڑی اور اہم کاوش ہے جو صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ ہر شہری کی شراکت سے کامیاب ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان نے اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ اور گلشن اقبال ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد کے ہمراہ ”آؤ کراچی سرسبز بنائیں“ کے عنوان سے شجرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ افتتاحی تقریب گلشن اقبال بلاک 16 کے محمود غزنوی پارک میں منعقد ہوئی، جس میں جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین، وائس چیئرمین اور دیگر بلدیاتی نمائندے بھی شریک ہوئے۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور گرم موسم کی شدت کے پیش نظر ایک لاکھ درخت لگائے گی، مہم کی نگرانی ٹاؤن اور یوسی چیئرمینوں سمیت بلدیاتی نمائندے کریں گے تاکہ یہ عمل مؤثر اور مربوط انداز میں آگے بڑھے۔ انہوں نے سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی بہتری کے وعدے صرف زبانی رہے، عملی اقدامات صفر ہیں، سندھ حکومت کے وعدے کے مطابق 50 ہزار درخت کہاں گئے؟ سندھ انوائیرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی اور دیگر متعلقہ ادارے کیوں غائب ہیں؟
منعم ظفر خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کرپشن اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی ماحولیاتی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے، جن میں 9 ٹاؤنز میں 155 سے زائد پارکس کی بحالی، “روڈ سائیڈ جنگل” اور “اربن فارسٹ” کے منصوبے شامل ہیں۔ گلبرگ اور لیاقت آباد ٹاؤن میں ہزاروں پودے لگائے گئے اور ان کے تحفظ کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں، ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے پانی کے مسئلے پر بھی کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیڈرل بی ایریا بلاک 10 اور 20 میں “واٹر ہارویسٹنگ پروجیکٹ” کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ بارش اور وضو کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے، کراچی جیسے میگا سٹی کو کم از کم 500 ارب روپے درکار ہیں۔ ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے کی ترقیاتی فنڈنگ ہونی چاہیئے، کراچی صوبائی بجٹ کا 96 فیصد فراہم کرتا ہے لیکن اسے اس کا جائز حصہ نہیں دیا جاتا، اور جو رقم ملتی ہے وہ بھی کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ 749 میں سے 400 خطرناک عمارتیں صرف ضلع جنوبی میں واقع ہیں۔ انہوں نے وزیر بلدیات سے سوال کیا کہ 80 گز کے پلاٹ پر 8 منزلہ عمارت کی اجازت کون دیتا ہے؟ کراچی اب کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے، درختوں کی کمی خطرناک ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر عالمی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر 7 افراد کے لیے ایک درخت ہونا ضروری ہے جبکہ کراچی میں 1000 افراد کے لیے صرف ایک درخت ہے، 2016ء کی ہیٹ ویو میں ہزاروں افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، ایسی صورتحال میں کمیونٹیز کو یکجا ہو کر شجرکاری کی ضرورت و اہمیت کو عام کرنا ہوگا، کیونکہ آج لگایا گیا درخت آنے والی نسلوں کی حفاظت ہے، یہ مہم کراچی کی فضا کو بہتر بنانے کی ایک بڑی اور اہم کاوش ہے جو صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ ہر شہری کی شراکت سے کامیاب ہو سکتی ہے۔