امت کی عقیدت و محبت کا مرکز خانوادۂ نبوت
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
لیکن حضرت معاویہؓ کی رہنمائی اور قیادت میں تقریباً دو عشرے رہنے کے بعد یزید پر اگر ان کے اعتراضات ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتراض بنو امیہ پر نہیں تھا بلکہ یہ یزید کی ذات پر تھا۔ اس لیے یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی کشمکش تھی۔ اگر یہ بات ہوتی تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کا اعتراض حضرت معاویہؓ پر ہوتا، حضرت حسنؓ صلح نہ کرتے اور حضرت حسینؓ صلح قبول نہ کرتے اور بیس سال اس صلح کے ماحول میں نہ گزارتے اور ان سے وظائف وصول نہ کرتے۔ جب یہ سب کچھ ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کو جو اشکال تھا وہ بنو امیہ پر نہیں بلکہ یزید کی ذات پر تھا کہ انہیں یزید کی ذات اس منصب کا اہل نہیں دکھائی دیتی تھی جس پر حضرات خلفائے ثلاثہؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد حضرت معاویہؓ بیس سال حکومت کرتے رہے۔
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم آج حضرت حسینؓ کا نام تو بہت لیتے ہیں لیکن آج جتنے لوگ بھی عالمِ اسلام میں، مسلم دنیا میں حکمرانی کر رہے ہیں، ان میں منصب کا اہل کون کون ہے اور ہمارا ان کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ یعنی جو اصل مقصد اور مشن تھا اس کے ساتھ تو ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، اور جو ایک ظاہری بات ہے اس پر ہم تقریریں کرتے ہیں، مضمون لکھتے ہیں ۔ خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے اور ان کا حق اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اپنی محبت اور نسبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ لیکن حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا اصل مشن کیا تھا؟ دو حوالوں سے میں اس پر بات کرنا چاہوں گا۔
ایک اس حوالے سے کہ آج امت کتنے حصوں میں تقسیم ہے؟ امت کی وحدت کے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ آج ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ ہمارے حکمران ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کو تیار ہو جائیں تو امت کی وحدت کا نظام آج بھی بن سکتا ہے۔ آج کے حالات میں ہماری امت کی سب سے بڑی ضرورت وحدت ہے اور اس کے لیے حضرت حسنؓ ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔
امت کی وحدت کے حوالے سے یہ بھی دیکھیں کہ آج ہم مسلمان جس طرح دنیا میں تقسیم ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف دشمن قوتوں کے ساتھی بن جاتے ہیں، اس میں حضرت معاویہؓ کے ایک تاریخی واقعے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ جس زمانے میں حضرت علیؓ کی اور حضرت معاویہؓ کی جنگ تھی۔ یہ فرق بھی ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہیے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے زمانے میں تین جنگیں ہوئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جمل کی جنگ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین کی جنگ، اور خوارج کے ساتھ نہروان کی جنگ۔ ان تینوں جنگوں میں فرق کیا ہے؟
(۱) حضرت عائشہؓ کے ساتھ جو جنگ ہوئی اس میں حضرت علیؓ نے دونوں طرف کے شہداء کا جنازہ خود پڑھایا اور یہ کہا کہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے درمیان مغالطہ ہو گیا تھا۔(۲) حضرت معاویہؓ کے ساتھ جنگ صفین میں جو دونوں طرف کے شہید ہوئے، ان کا جنازہ حضرت علیؓ نے خود پڑھایا اور یہ کہا کہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارا آپس میں جھگڑا ہو گیا تھا۔(۳) لیکن جب خوارج کے ساتھ نہروان کی جنگ ہوئی تو حضرت علیؓ نے کہا یہ ہمارے دشمن ہیں، نہ ان کا جنازہ پڑھا اور نہ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔یہ میں بنیادی فرق عرض کرنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کی باہمی جنگ میں اور گمراہوں اور باغیوں کے ساتھ جنگ میں یہ فرق ہے کہ صفین اور جمل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دونوں طرف کے جنازے پڑھائے اور دونوں طرف کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہے جبکہ نہروان کی جنگ میں حضرت علیؓ نے یہ معاملہ نہیں کیا۔
خیر اس زمانے میں جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جنگ تھی، آپس میں آمنے سامنے تھے تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت روم کے بادشاہ نے اس جنگ کا حال دیکھ کر حضرت معاویہؓ کو پیغام بھیجا کہ اس جنگ میں اگر تمہیں میری مدد کی ضرورت ہو تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ بات میں آج کے عالمی تناظر کے حوالے سے ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے اسوہ یہ لوگ ہیں۔ جب قیصر روم نے حضرت معاویہؓ کو پیغام بھیجا کہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں تو حضرت معاویہؓ نے بڑا سخت جواب دیا۔ فرمایا یاد رکھو! میری اور علی کی جنگ آپس کی بھائیوں کی جنگ ہے۔ بھائی آپس میں لڑ پڑتے ہیں، چچا بھتیجا لڑ پڑتے ہیں، باپ بیٹا لڑ پڑتے ہیں۔ فرمایا یاد رکھو! اگر تم نے اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور حضرت علیؓ کے خلاف تم نے کوئی فوجی قدم اٹھایا توانؓ کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف لڑنے والوں میں معاویہؓ پہلا سپاہی ہو گا۔ ہماری آپس کی جنگ تمہارے فائدے کا باعث نہیں بنے گی۔‘‘
آج ان بزرگوں کا یہ اسوہ حسنہ ہمارے لیے نمونہ اور رہنمائی ہے۔ ہم مسلم ممالک اور اقوام اس طرز عمل کو سامنے رکھ لیں کہ ہم نے آپس کے جھگڑے نمٹانے ہیں اور اپنے جھگڑوں سے کسی دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا۔ لیکن آج ہماری صورتحال کتنی افسوسناک بلکہ شرمناک ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ہماری لڑائیوں سے دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے۔
میں یہ کہوں گا کہ اس تناظر میں حضرت معاویہؓ کا یہ تاریخی جملہ ہمارے لیے اسوہ، نمونہ اور رہنمائی ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امت کی وحدت کے لیے جو قربانی دی، خلافت سے دستبرداری اختیار کر کے حضرت معاویہؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور پھر ان کا پورا خاندان حضرت معاویہؓ کی وفات تک ان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ قائم رہا۔ یہ ان کا ہمارے لیے اسوہ ہے اور آج کے حالات میں ہمارے لیے رہنمائی کی بات ہے۔اور یہ جو ہمارے ملکوں میں ظالمانہ نظام ہیں، مسلم ممالک میں ہم مسلمان اسلام کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دنیا میں کہیں بھی قرآن و سنت کی اور خلافت کی حکمرانی مکمل طور پر نہیں ہے، یہ جو نوآبادیاتی دور کے ظالمانہ نظام ہم پر مسلط ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانا، محنت کرنا اور حالات کے تناظر میں، آج کے حالات کے ظروف میں ان نظاموں کے بدلنے کی کوشش کرنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسوہ ہے اور ہمارے لیے ان کی رہنمائی ہے۔
خاندان نبوت کے ساتھ محبت کا اظہار ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم اہل السنۃ والجماعۃ تو فرق کرتے ہی نہیں ہیں کہ ہم جب صحابہؓ کا لفظ بولتے ہیں تو ان میں اہل بیتؓ از خود شامل ہوتے ہیں، ہمیں تفریق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ہم الگ طور پر بھی بول دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب صحابہؓ کا ذکر ہوتا ہے تو اس دائرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی آتی ہیں، خاندان بھی آتا ہے، اولاد بھی آتی ہے، اور نواسے نواسیاں بھی آتی ہیں۔ یہ سب صحابہؓ کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں، الگ سے ذکر کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی اہلِ بیت کا مستقل ذکر نسبت اور محبت کی بات ہے۔ ہم اہل السنۃ والجماعۃ صحابہ کرامؓ کے ساتھ جیسی محبت رکھتے ہیں الحمد للہ اہل بیت عظامؓ کے ساتھ بھی ہماری محبت ویسی ہی ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض روایات میں اہل بیتؓ کی محبت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ہمارے ہاں توازن اور اعتدال ہے۔ ہم نہ کسی کے حق میں کمی کرتے ہیں، نہ کسی کو ایک حد سے آگے بڑھاتے ہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں ایک بڑا عجیب جملہ فرمایا ہے جو ہم جمعہ کے خطبے میں اکثر پڑھا کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’ جس کو مجھ سے محبت ہے اس کو صحابہ کرام سے محبت ہوگی، اور جس کو مجھ سے بغض ہے اس کو ان کے ساتھ بغض ہوگا۔‘‘ اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں فرمایا’’ یہ میرے اہل بیت ؓ ہیں، میرا خاندان ہے، ان کے ساتھ محبت ایمان کی علامت ہے اور ان کے ساتھ بغض نفاق کی علامت ہے۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہمارے لیے اسوہ دونوں طرف کے رضی اللہ عنہ میں حضرت علی حضرت معاویہ امت کی وحدت ان کے ساتھ اور حضرت کرتے ہیں اہل بیت کے خلاف ہے اور کی جنگ کے لیے
پڑھیں:
ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے میں یہ ٹارگٹ حاصل کیا، بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا،وزیراعلیٰ
24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے،گفتگو
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی۔راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا۔انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا، اور کہا تھا سب کو آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا، 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کر کے واپس لوٹا تھا۔علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کر کے گولیاں چلائیں۔دریں اثنا وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا سوشل میڈیا پر لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، سوشل میڈیا نے الیکشن میں ہمیں بالکل سپورٹ کیا، مجھے لوگوں نے ووٹ سوشل میڈیا پر نہیں پولنگ بوتھ پر جا کر دیٔے انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا کردار ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوشل میڈیا نے ہی سب کچھ کیا ہے، بغیر تحقیق کے الزامات لگانا ہماری اخلاقیات کی گراوٹ ہے، جب بانی پی ٹی آئی نے فائنل مارچ کی کال دی تو لوگ کیوں نہ آئے؟ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وی لاگ اور جعلی اکاونٹ بنانے سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی جاتی، ان ڈراموں کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہو رہے، گھوڑے ایسے نہیں دوڑائے جاتے ایسے دوڑائے جاتے ہیں۔اس موقع پر علی امین گنڈاپور نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کو ٹیڑھا کر کے گھوڑے دوڑانے کی ترکیب بتائی۔ انکے گھوڑے دوڑانے کے اسٹائل پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے قہقہ لگایا۔ انقلاب گھر بیٹھ کر انگلیاں چلانے سے نہیں آتے۔انھوں نے کہا پارٹی کے اندر ایک تناو ہے، گروپ بندیاں چل رہی ہیں، یہ گروپ بندیاں کس نے کی، میں نے نہیں بنائیں، میری گزارش ہے گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں، کوئی ایک شخص آکر بتائے میں نے کوئی گروپ بندی کی ہو۔وزیراعلیٰ نے کہا کمزور پوزیشن میں مذاکرات ہوتے ہیں نہ کہ جنگ ہوتی ہے، ہمیں کمزور کر کے گروپوں میں بانٹا جا رہا ہے، جلسہ ہے پشاور آئیں کوئی رکاوٹ نہیں، یہ ایسا نہیں کرینگے بس علی امین پر الزامات لگائیں گے۔انھوں نے کہا 5 اور 14 اگست کو کتنے لوگ نکلے؟ صرف باتیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک کر نے سے انقلاب نہیں آتے، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک سے انقلاب آتے ہوتے تو بانی پی ٹی آئی جیل میں نہ ہوتے۔