سندھ طاس معاہدے کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے(جنرل ساحر شمشاد مرزا)
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر افواج کی تعداد کم کر رہے ہیں،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی
حالیہ بحران نے مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھا دیا ہے،غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر افواج کی تعداد کم کر رہے ہیں اور ہم 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں تاہم حالیہ بحران نے مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے لیے موجود مسلح افواج کیسربراہ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے پہلی بار سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا جو کہ ایک انتہائی تشویشناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے، یہ فیصلہ پہلگام حملے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر بغیر کسی ثبوت کے کیا گیا۔انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، پاکستان نے معاملے کی غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی تاکہ سچ سامنے آ سکے مگر بھارت نے اس پر مثبت ردعمل دینے کے بجائے جارحانہ اقدامات کو ترجیح دی۔پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں نے افواج کی سطح میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے، ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں، ہم اْس کے قریب پہنچ چکے ہیں، یا شاید پہنچ چکے ہوں گے۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ اگرچہ اس تنازع کے دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی تاہم یہ ایک خطرناک صورتحال تھی، اس بار کچھ نہیں ہوا لیکن آپ کسی بھی وقت کسی سٹریٹجک غلطی کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ جب بحران ہوتا ہے تو ردِعمل مختلف ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ اس بار کی لڑائی صرف متنازعہ علاقے کشمیر تک محدود نہیں رہی، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے مرکزی علاقوں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا لیکن کسی نے بھی کسی سنجیدہ نقصان کو تسلیم نہیں کیا۔سربراہ مسلح افواج نے کہا کہ یہ تنازع دو جوہری طاقتوں کے درمیان حد کو کم کرتا ہے، مستقبل میں یہ صرف متنازعہ علاقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان تک پھیل جائے گا، یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں بین الاقوامی ثالثی مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کا کوئی مؤثر طریقہ کار موجود نہیں، بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کا وقت بہت کم ہو گا اور میں کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اْس سے پہلے ہی واقع ہو سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار تھا لیکن ہاٹ لائنز کے علاوہ سرحد پر چند ٹیکٹیکل سطح کے رابطوں کے سوا کوئی اور مواصلاتی ذریعہ موجود نہیں تھا، کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی پسِ پردہ یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہو رہی تھی۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ یہ مسائل صرف میز پر بیٹھ کر مذاکرات اور مشاورت سے حل ہو سکتے ہیں، یہ میدان جنگ میں حل نہیں ہو سکتے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کہا ہے کہ انہوں نے افواج کی نہیں ہو نے کہا کے لیے
پڑھیں:
خطے میں بالادستی کا خواہشمند بھارت تنازعات کے مؤثر حل سے گریزاں ہے، جنرل ساحر شمشاد
سنگاپور میں ہونے والے عالمی سیکیورٹی اجلاس ’شنگریلا ڈائیلاگ‘ میں پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ سیکیورٹی کے نظام اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتے جب تک ان کی بنیاد اعتماد پر نہ ہو اور وہ سب کو ساتھ لے کر نہ چلیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بھارت سرحدوں پر تعینات اضافی فوجیوں کی واپسی کے عمل کے قریب پہنچ چکے ہیں، جنرل ساحر شمشاد مرزا
جنرل ساحر شمشاد نے جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے خطرات کی نشاندہی کی اور ایشیا پیسیفک سمیت دیگر خطوں میں جامع، مؤثر اور ادارہ جاتی بحران سے نمٹنے کے نظام کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی استحکام صرف طاقت کے زور پر نہیں بلکہ باہمی اعتماد، صبر اور سرخ لکیر کی شناخت کے اصولوں پر قائم ہونا چاہیے۔
جنرل مرزا نے جنوبی ایشیا کو ایک ایسے خطے کے طور پر پیش کیا جو عالمی سطح کے خطرات سے دوچار ہے، جن میں کشمیر کا دیرینہ تنازع، بھارت-پاکستان-چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور افغانستان میں جاری عدم استحکام شامل ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خطے میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی غلط اندازے کے خطرات کو کئی گنا بڑھا چکی ہے اور ایسے میں مؤثر رابطے کے ذرائع ناگزیر ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی متواتر خلاف ورزیاں، تیر کمان سے نکلنے سے پہلے دنیا کارروائی کرلے
انہوں نے بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری تیاریوں اور مغربی طاقتوں سے ملنے والی حمایت پر بھی تنقید کی۔
جنرل مرزا کے مطابق بھارت خطے میں بالادستی قائم کرنے کی خواہش میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ تنازعات کے مؤثر حل سے بھی گریز کر رہا ہے۔
انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی حد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے، جو ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے اور سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکیوں کو پاکستان کے لیے ’وجودی خطرہ‘ اور ممکنہ طور پر ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا۔
جنرل مرزا نے واضح کیا کہ پاکستان ہمیشہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع کو ترجیح دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے امن اسی صورت ممکن ہے جب باہمی احترام، مساوی خودمختاری اور عزتِ نفس کی بنیاد پر بات چیت ہو۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب امریکا سے پہلے پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے متحرک تھا، سفارتکار جاوید حفیظ
ایشیا پیسیفک کے وسیع تر تناظر میں انہوں نے خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری دوڑ اور بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے بازی پر تشویش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی طاقتیں سیکیورٹی کے نظام ترتیب دے رہی ہیں لیکن مقامی ملکوں کی شمولیت کے بغیر یہ نظام قابلِ عمل اور قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے تجویز دی کہ پہلے سے موجود دو طرفہ، علاقائی اور عالمی سیکیورٹی ڈھانچوں کو فعال بنایا جائے، بجائے اس کے کہ ہر بار نئے نظام تشکیل دیے جائیں۔
انہوں نے زور دیا کہ صرف تنازعے کا انتظام نہیں بلکہ اس کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
عالمی سطح پر جنرل مرزا نے سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقت اور مفادات نے اصولوں اور اخلاقیات کی جگہ لے لی ہے، ریاستی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے، جبکہ کثیرالطرفہ تعاون کی جگہ تنگ نظر، محدود اتحادوں نے لے لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر سے ملاقات، پاک بھارت کشیدگی کے دوران حمایت پر شکریہ ادا کیا
انہوں نے بحرانوں سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ طریقہ کار، پہلے سے طے شدہ رابطے کے اصول، اور مشترکہ فوجی مشقوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی، جیسے مصنوعی ذہانت (AI) اور سائبر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو ایک نیا خطرہ قرار دیا، جو فیصلہ سازی کے وقت کو محدود اور روک تھام کی حکمتِ عملی کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا اسٹریٹجک کمیونیکیشن بہت اہم ہے۔ غلط فہمی، بیانیے کی جنگ اور معلومات کی بگاڑ کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں۔
آخر میں جنرل مرزا نے ایک بار پھر پاکستان کے کشمیر سے متعلق دیرینہ مؤقف کو دہرایا اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ حل کرنے کو خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایٹمی جنگ بھارت پاکستان سندھ طاس معاہدہ سنگاپور شنگریلا ڈائیلاگ