مسافر ریل گاڑی حادثے کا شکار، دیگر ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنز پر روک لیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
ملتان ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 01 جون 2025ء ) مسافر ریل گاڑی حادثے کا شکار ہونے کے باعث دیگر ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنز پر روک لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی سے راولپنڈی جانے والی پاکستان ایکسپریس ٹرین مبارک پور اور کلانچوالہ کے درمیان حادثے کا شکار ہوئی ہے، اس حادثے میں ٹرین کی دو بوگیاں، ڈائنگ کار کی ٹرالی اور پہیے پٹڑی سے اتر کر باہر جاگرے، خوش قسمتی سے اس حادثے میں تمام مسافر محفوظ رہے اور کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تاہم حادثے کے باعث دیگر مسافر ٹرینوں کو مختلف اسٹیشنز پر روک لیا گیا اور جائے وقوعہ پر ریلیف آپریشن جاری ہے، متاثرہ مسافروں کو ڈائنگ کار سے آگے والی دیگر کوچز میں منتقل کرکے ٹرین روانہ کردی گئی۔
بتایا جارہا ہے کہ چند روز قبل کراچی سے لاہور آنے والی شالیمار ایکسپریس بھی حادثے کا شکار ہوئی تھی، یہ حادثہ کچے پھاٹک کے قریب اینٹوں کی بھری ٹرالی کے باعث پیش آیا، حادثے کے باعث شالیمار ایکسپریس کی متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر کر الٹ گئیں جس کے نتیجے میں 5 افراد زخمی ہوئے، حادثے کے باعث فیصل آباد آنے اور جانے والی دیگر ٹرینوں کو بھی روکنا پڑ گیا تھا۔(جاری ہے)
حکام نے بتایا کہ ٹرین کراچی سے لاہور آرہی تھی کہ راستے میں حادثہ پیش آگیا کیوں کہ ٹریکٹر ٹرالی آئل ختم ہونے کے باعث پھاٹک پر کھڑی تھی، حادثے کے بعد ٹریکٹر ٹرالی کا ڈرائیور فرار ہو گیا جب کہ حادثے کے بعد امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیں اور مسافروں کو امدادی ٹرین میں روانہ کردیا گیا اور ٹریک کو مکمل طور پر کلیئر کرنے میں تقریباً 6 گھنٹے کا وقت لگا۔ .ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حادثے کا شکار ٹرینوں کو حادثے کے کے باعث
پڑھیں:
20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سیکرٹری ریلوے نے انکشاف کیا کہ پاکستان ریلوے کا آپریشن گزشتہ 20 سال میں نصف رہ گیا ہے۔
ان کے مطابق، دو دہائیاں قبل ریلوے 200 ٹرینیں چلاتی تھی جبکہ آج صرف 100 ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مالی مشکلات اور پرانے انفرااسٹرکچر کی خراب حالت کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا ہے۔ ریلوے وہ ریونیو پیدا نہیں کر پاتی جو نجی شعبہ کر لیتا ہے، تاہم اس وقت کراچی سے 8 سے 9 ایکسپورٹ ٹرینیں اور لاہور، راولپنڈی اور پشاور کے لیے فریٹ ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔
اجلاس میں اراکین نے ریلوے کی کارکردگی اور پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ناصر بٹ نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ 20 سال میں ریلوے مکمل طور پر بند ہو جائے گی۔ کامل علی آغا نے سوال اٹھایا کہ جب آؤٹ سورسنگ کی پہلی ٹرین ہی عدالت میں چلی گئی تو پھر ریلوے کو آؤٹ سورس کیوں کیا جا رہا ہے؟
سینیٹر روبینہ خالد نے جاپان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ٹرین کو آؤٹ سورس نہیں کیا گیا، اس لیے پاکستان کو بھی اس ماڈل پر غور کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اثاثے کو آؤٹ سورس کرنے کے بجائے اس کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور جدید سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینی ہوگی۔
ریلوے حکام نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ ایم ایل ون منصوبے سمیت کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اور مستقبل میں ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اصلاحاتی اقدامات کیے جائیں گے۔