20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سیکرٹری ریلوے نے انکشاف کیا کہ پاکستان ریلوے کا آپریشن گزشتہ 20 سال میں نصف رہ گیا ہے۔
ان کے مطابق، دو دہائیاں قبل ریلوے 200 ٹرینیں چلاتی تھی جبکہ آج صرف 100 ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مالی مشکلات اور پرانے انفرااسٹرکچر کی خراب حالت کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا ہے۔ ریلوے وہ ریونیو پیدا نہیں کر پاتی جو نجی شعبہ کر لیتا ہے، تاہم اس وقت کراچی سے 8 سے 9 ایکسپورٹ ٹرینیں اور لاہور، راولپنڈی اور پشاور کے لیے فریٹ ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔
اجلاس میں اراکین نے ریلوے کی کارکردگی اور پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ناصر بٹ نے کہا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ 20 سال میں ریلوے مکمل طور پر بند ہو جائے گی۔ کامل علی آغا نے سوال اٹھایا کہ جب آؤٹ سورسنگ کی پہلی ٹرین ہی عدالت میں چلی گئی تو پھر ریلوے کو آؤٹ سورس کیوں کیا جا رہا ہے؟
سینیٹر روبینہ خالد نے جاپان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ٹرین کو آؤٹ سورس نہیں کیا گیا، اس لیے پاکستان کو بھی اس ماڈل پر غور کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اثاثے کو آؤٹ سورس کرنے کے بجائے اس کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور جدید سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینی ہوگی۔
ریلوے حکام نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ ایم ایل ون منصوبے سمیت کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اور مستقبل میں ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اصلاحاتی اقدامات کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: آڈیٹرجنرل آف پاکستان نے سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا اعتراف کر لیا ۔ پہلے آڈٹ رپورٹ میں 376 ٹریلین کی بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم اب نظرثانی کرتےہوئے رقم 9.76 ٹریلین روپے کر دی گئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی وفاقی سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ2024-25 غلطیوں کا پلندہ نکلی ۔ ملک کے سب سے بڑے آڈٹ ادارے نے اعتراف کر لیا۔ غلطیوں کی تصحیح کے بعد گذشتہ مالی سال کے دوران وفاقی اداروں میں مجموعی مالی بے ضابطگیوں کی رقم 375 ٹریلین کےبجائےصرف 9.76 ٹریلین روپے نکلی ۔ آڈیٹر جنرل حکام نے رپورٹ میں سیکڑوں کھرب روپے کی کمی بیشی کو محض ٹائپنگ کی غلطیاں کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
ملکی سپریم آڈٹ آفس کی جانب سے 4858 صفحات پر مشتمل نئی تصحیح شدہ مجموعی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر جاری کردی گئی۔ ساتھ وضاحتی نوٹ میں کہاگیا ہےکہ گزشتہ آڈٹ رپورٹ میں غلطی سے 2 مقامات پر لفظ بلین کےبجائے ٹریلین ٹائپ ہوگیا ۔ مجموعی آڈٹ رپورٹ میں درستگی کے بعد مالی سال 2024-25 میں بےضابطگیوں کی اصل رقم 9.769 ٹریلین روپےپائی گئی۔ ملکی تاریخ کی پہلی کنسالیڈیٹڈآڈٹ رپورٹ اگست میں جاری کی گئی تھی ۔ جو بھاری بھر کم غلطیوں کے باعث ادارے کیلئے بدنامی کا سبب بن گئی۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی اداروں کے آڈٹ پر اے جی پی کا براہِ راست خرچ 3.02 ارب روپے رہا ۔ آڈٹ میں بجٹ سےزائد اخراجات سمیت کئی بےضابطگیاں سامنےآئیں ۔ سرکلر ڈیٹ، زمینوں کے تنازعات ، کارپوریشنز اور کمپنیوں کے کھاتوں کا بھی آڈٹ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بے ضابطگیوں کا اثر کئی برسوں پر محیط ہے۔ بڑی آڈٹ فائنڈنگز کو اب گزشتہ کنسولیڈیٹڈ رپورٹس کے طرز پر درج کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے میڈیا میں بے ضابطگیوں کی بھاری رقم پر سوالات اٹھائے جانے پر آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ پر قائم رہنے کا بیان جاری کیا تھا۔