’فری فلسطین‘ ایمی ایوارڈز میں فلسطین کے حق میں آوازیں بلند
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
ہالی ووڈ کے سب سے بڑے ٹی وی ایوارڈز، 77ویں سالانہ ایمی ایوارڈز کی تقریب میں متعدد فنکاروں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ’فری فلسطین‘ کے نعرے بلند کیے۔
تقریب میں ڈرامہ سیریز Hacks کی اداکارہ ہنہ آئنبائنڈر نے بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ جیتنے کے بعد اسٹیج پر مختصر مگر دوٹوک خطاب کیا۔ انہوں نے کہا ’گو برڈز، ایف۔آئی۔سی۔ای (امریکی امیگریشن ایجنسی) اور فری فلسطین‘۔
اس موقع پر ہسپانوی اداکار اویر باردیم نے فلسطینی روایتی رومال کفیہ پہن کر ریڈ کارپٹ پر شرکت کی۔ انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ ان فلمی اداروں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جو اسرائیل کے جنگی جرائم اور غزہ میں نسل کشی کو سفید کرنے میں شریک ہیں۔
Hannah Einbinder made the remark while accepting the award for Supporting Actress in a Comedy Series for Hacks at the 77th Primetime Emmy Awards in Los Angeles, California, on September 14 pic.
— TRT World (@trtworld) September 15, 2025
ایوارڈ شو کے دوران لاسٹ ویک ٹونائٹ وِد جان اولیور کے مصنف ڈینیئل اوبرائن نے بہترین اسکرپٹڈ ویرائٹی سیریز کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں موجودہ حکومت پر تنقید کرنا فنکاروں کے لیے تیزی سے مشکل بنتا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہالی ووڈ کے 1,800 سے زائد اداکاروں، ہدایتکاروں اور پروڈیوسرز نے ایک حلف نامے پر دستخط کیے جس میں انہوں نے اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا۔ یہ اعلان جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے دور میں فلم سازوں کی جانب سے بائیکاٹ کی تحریک سے متاثر ہو کر کیا گیا۔
اس اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی فلمیں ان اداروں میں نمائش کے لیے نہیں دیں گے اور نہ ہی اسرائیلی فلمی اداروں، فیسٹیولز، پروڈکشن کمپنیوں یا نشریاتی اداروں کے ساتھ کام کریں گے جو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور اپارتھائیڈ میں ملوث ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’فری فلسطین‘ ایمی ایوارڈز ڈینیئل اوبرائن ہالی ووڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فری فلسطین ایمی ایوارڈز ڈینیئل اوبرائن ہالی ووڈ فری فلسطین
پڑھیں:
جنوبی افریقا کیخلاف فتح سے پاکستانی ٹیم کے حوصلے بلند، ورلڈ کپ کیلیے امیدیں جاگ اٹھیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حوصلے ایک بار پھر بلند ہو گئے ہیں۔
جنوبی افریقا کے خلاف سیریز میں کامیابی نے گرین شرٹس کو نہ صرف نئی توانائی دی ہے بلکہ عالمی ایونٹ سے قبل کھلاڑیوں کے اعتماد کو بھی مضبوط کر دیا ہے۔ لاہور میں کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان نے پروٹیز کو شکست دے کر سیریز اپنے نام کی، جس کے بعد ٹیم مینجمنٹ اور شائقین کرکٹ کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کپتان سلمان علی آغا، جو حالیہ دنوں میں تنقید کی زد میں تھے، اس فتح کے بعد خاصے پُراعتماد دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم ہمیشہ دباؤ کے بعد واپسی کرنا جانتی ہے اور یہی خوبی اس کی اصل طاقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کھلاڑی اب اپنی ذمہ داریوں اور کردار کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی تسلسل کو برقرار رکھا جائے۔ سلمان نے اعتراف کیا کہ کھیل کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا کامیابی کی کنجی ہے اور یہی فارمولا ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کامیاب بنا سکتا ہے۔
اس سیریز میں سب سے نمایاں کارکردگی بابراعظم کی رہی، جنہوں نے 68 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی فارم میں واپسی سے بیٹنگ لائن کے حوالے سے شائقین کی تشویش کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔ بابر کا کہنا تھا کہ میں کافی عرصے سے ایک اچھی اننگز کی تلاش میں تھا، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ دباؤ کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے خود پر بھروسا رکھا اور ٹیم نے مجھ پر یقین کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اسپنرز کے خلاف محتاط رہیں اور کریز پر زیادہ دیر ٹھہرنے کی کوشش کریں، بالآخر یہی حکمت عملی کامیاب رہی۔
پلیئر آف دی سیریز قرار پانے والے فہیم اشرف نے بھی ایک مرتبہ پھر خود کو ٹیم کا قیمتی اثاثہ ثابت کیا۔ انہوں نے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں شاندار کارکردگی دکھا کر ثابت کیا کہ وہ حقیقی معنوں میں آل راؤنڈر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم کی ضرورت کے مطابق خود کو ڈھالوں، چاہے گیند سے ہو یا بیٹ سے۔ بطور بولر میں اکثر بیٹر کے زاویے سے سوچتا ہوں تاکہ اس کی اگلی چال کا اندازہ لگا سکوں۔
فہیم نے مزید کہا کہ کرکٹ میں مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضمانت ہے اور ٹیم میں ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل 14 سے 15 میچز باقی ہیں، جن میں تسلسل اور فٹنس برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔