امریکی وزیر دفاع کی جانب سے چین پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہیں، چینی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
بیجنگ:چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع ہیگستھ کی طرف سے شنگریلا ڈائیلاگ میں چین کے خلاف منفی بیانات پر نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہیگستھ نے خطے کے ممالک کی امن اور ترقی کی خواہش کو نظرانداز کرتے ہوئے سرد جنگ کے تصورات کو فروغ دیا اور چین پر الزامات لگائے، جس میں چین کو خطرہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ چین اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے ،اسے مسترد کرتا ہے اور امریکہ سے اس حوالے سے سخت احتجاج کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی دنیا کا حقیقی بالادست ملک ہے جو ایشیا بحر الکاہل کے امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے، امریکہ اپنی “انڈو پیسفک اسٹریٹجی” کو آگے بڑھاتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین میں جارحانہ ہتھیاروں کی تعیناتی کر رہا ہے، خطے میں تناؤ پیدا کر رہا ہے اور ایشیا بحر الکاہل کو “بارود کا ڈھیر” بنا رہا ہے، جس سے خطے کے ممالک میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔اتوار کے روز ترجمان نےتائیوان کے امور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان کا معاملہ مکمل طور پر چین کا داخلی معاملہ ہے، کسی بھی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کا حق نہیں۔ امریکہ کو تائیوان کے معاملے کو چین کو دبانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور آگ سے کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے۔
چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ ایک چین کے اصول اور چین-امریکہ تین مشترکہ اعلامیوں پر عمل کرے اور “تائیوان کی علیحدگی ” کی حمایت کرنے والوں کی پشت پناہی بند کرے۔بحیرہ جنوبی چین کے بارے میں ترجمان نے کہا کہ یہاں جہاز رانی اور ائیر اسپیس کے استعمال کی آزادی میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ چین بحیرہ جنوبی چین کے معاملات پر ہمیشہ متعلقہ ممالک کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے پر زور دیتا ہے اور قانون کے مطابق اپنی علاقائی خودمختاری اور سمندری حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ امریکہ ہی بحیرہ جنوبی چین میں امن اور استحکام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا عنصر ہے۔
چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ خطے کے ممالک کی امن اور استحکام کے لیے کی گئی کوششوں کا احترام کرے، جان بوجھ کر خطے کے پرامن ماحول کو خراب کرنے سے باز رہے، اور تنازعات اور تصادم کو ہوا دینے اور خطے کی صورتحال کو مزید کشیدہ کرنے سے گریز کرے۔
Post Views: 2.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بحیرہ جنوبی چین کے لیے خطے کے چین کے
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘