امریکی صدر ٹرمپ کا جلد چینی صدر سے رابطے کا امکان، کن اہم امور پر گفتگو ہوگی؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی چینی صدر شی جن پنگ سے بات چیت کرسکتے ہیں، جس سے دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی تنازع میں پیشرفت کا امکان ہے۔
سی بی ایس کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بیسنٹ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جب صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان فون کال ہو گی، تو معاملات سلجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چین کچھ ایسی اشیا روک کر بیٹھا ہے جنہیں حالیہ معاہدے کے تحت برآمد کیا جانا تھا۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان اشیا میں نایاب دھاتیں بھی شامل ہیں، جو کاریں اور چِپ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ممکن ہے یہ چینی نظام کی کسی خرابی کا نتیجہ ہو، یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہو۔ یہ بات صدر ٹرمپ کی چینی صدر شی جن پنگ سے گفتگو کے بعد ہی واضح ہوگی۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی ٹیرف پر باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات جن کی قیادت خود بیسنٹ نے کی، کے بعد امریکا اور چین نے ایک 90 روزہ عارضی تجارتی سیز فائر پر اتفاق کیا تھا، جس کے تحت ایک دوسرے پر عائد بھاری محصولات کو وقتی طور پر کم کیا گیا۔
تاہم صدر ٹرمپ نے بیجنگ پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ چین نے نایاب دھاتوں کی برآمد کے لائسنسز کی منظوری میں دانستہ تاخیر کی ہے۔ امریکی حکام نے اس خدشے کی تصدیق کی ہے۔
اس تناظر میں امریکی کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹ نک نے اے بی سی کے پروگرام ’دس ویک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین اس معاہدے کو سست روی سے لاگو کر رہا ہے، اور ہم نے بھی کچھ اقدامات کیے ہیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ دوسری طرف کیسا محسوس ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف وار: امریکا کو متعدد ممالک کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا
صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا نے قریباً تمام تجارتی شراکت داروں پر سخت محصولات عائد کیے، جن میں چین سرفہرست رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی جوابی محصولات کی شرح 3 ہندسوں تک جا پہنچی تھی، مگر رواں ماہ کے آغاز میں کشیدگی میں کمی آئی جب واشنگٹن نے چینی درآمدات پر اضافی محصولات 145 فیصد سے کم کرکے 30 فیصد کر دیے، جبکہ چین نے بھی جوابی محصولات کو 125 فیصد سے گھٹا کر 10 فیصد کردیا۔
اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ممکنہ کال جلد متوقع ہے، اور اس سے بات چیت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکاٹ بیسنٹ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ چینی صدر شی جن پنگ صدر ٹرمپ صدر ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسکاٹ بیسنٹ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ چینی صدر شی جن پنگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چینی صدر شی جن پنگ اسکاٹ بیسنٹ کے درمیان کہ چین
پڑھیں:
’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائجیریا میں عیسائیوں کے قتلِ عام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نائجیریا کی حکومت نے فوری طور پر کارروائی نہ کی تو امریکا تیزی سے فوجی ایکشن لے گا۔
ٹرمپ نے ہفتے کی رات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر بیان میں کہا کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ تیز اور فیصلہ کن فوجی کارروائی کی تیاری کرے۔ ٹرمپ کے مطابق، امریکا نائجیریا کو دی جانے والی تمام مالی امداد اور معاونت فی الفور بند کر دے گا۔
انہوں نے لکھا کہ اگر امریکا نے کارروائی کی تو وہ “گنز اَن بلیزنگ” یعنی پوری طاقت سے ہوگی تاکہ اُن دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے جو عیسائیوں کے خلاف ہولناک مظالم کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے نائجیریا کی حکومت کو “بدنام ملک” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس نےجلدی ایکشن نہ لیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ، ”اگر ہم حملہ کریں گے تو وہ تیز، سخت اور میٹھا ہوگا، بالکل ویسا ہی جیسا یہ دہشت گرد ہمارے عزیز عیسائیوں پر کرتے ہیں!“
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس بیان پر کوئی تفصیلی تبصرہ نہیں کیا اور وائٹ ہاؤس نے بھی فوری ردعمل دینے سے گریز کیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ”وزارتِ جنگ کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ یا تو نائجیریا کی حکومت عیسائیوں کا تحفظ کرے، یا ہم ان دہشت گردوں کو ماریں گے جو یہ ظلم کر رہے ہیں۔“
خیال رہے کہ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے نائجیریا کو دوبارہ اُن ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس فہرست میں چین، میانمار، روس، شمالی کوریا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب، نائجیریا کے صدر بولا احمد تینوبو نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے۔ اُن کے مطابق، “نائجیریا کو مذہبی طور پر متعصب ملک قرار دینا حقیقت کے منافی ہے۔ حکومت سب شہریوں کے مذہبی اور شخصی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔”
نائجیریا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ملک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف پرعزم ہے، اور امریکا سمیت عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔
وزارت نے کہا کہ “ہم نسل، مذہب یا عقیدے سے بالاتر ہو کر ہر شہری کا تحفظ کرتے رہیں گے، کیونکہ تنوع ہی ہماری اصل طاقت ہے۔:
یاد رہے کہ نائجیریا میں بوکوحرام نامی شدت پسند تنظیم گزشتہ 15 سال سے دہشت گردی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق، بوکوحرام کے زیادہ تر متاثرین مسلمان ہیں۔
تاہم ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہزاروں عیسائیوں کو نائجیریا میں شدت پسند مسلمان قتل کر رہے ہیں”۔ لیکن انہوں نے اس الزام کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی کانگریس میں موجود ری پبلکن اراکین نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائجیریا میں “عیسائیوں پر بڑھتے مظالم” عالمی تشویش کا باعث ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر ٹرمپ کا یہ فوجی دھمکی نما بیان عملی جامہ پہنتا ہے تو افریقہ میں امریکا کی نئی فوجی مداخلت کا آغاز ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب خطے میں پہلے ہی امریکی اثر و رسوخ کمزور ہو چکا ہے۔
نائجیریا کی حکومت نے فی الحال امریکی صدر کے اس دھمکی آمیز بیان پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا۔