صدر ٹرمپ کے تاریخی دورہ سعودی عرب کی اہمیت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
پاک بھارت جنگ بندی میں سعودی عرب کا کردار، ’وزیراعظم اور وزیر خارجہ کل ایک روزہ دورہ کریں گے‘
نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حالیہ پاک بھارت فوجی کشیدگی ختم کرنے میں سعودی عرب نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سارا وقت میرے ساتھ رابطے میں تھے اور پہلگام واقعے کے دو دن بعد 24 اپریل کو اُن کی فون کال آئی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ جنگ بندی کے حوالے سے امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو سے اُن کی بات چیت ہوئی تو اُس کے بعد شہزادہ فیصل بن فرحان کا فون آیا جس میں انہوں نے کہاکہ اگر آپ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں تو کیا میں بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر سے بات کروں؟ اس پر میں نے کہاکہ بھارت اگر تیار ہے تو ہم بھی جنگ بندی کر سکتے ہیں۔ پاک بھارت ثالثی کے لیے سعودی وزیرمملکت برائے اُمورِ خارجہ عادل الجبیر بھی پاکستان آئے۔ پاکستان آنے سے قبل وہ دہلی گئے تھے اور یہاں اُنہوں نے میرے اور وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاک بھارت تنازع کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھی بیک ڈور ڈپلومیسی کی اور قطر نے بھی متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔ کل اسی سلسلے میں ہم سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستانی قیادت نے ترکیہ اور آذربائیجان کے کرادار کی تعریف تو کی لیکن سعودی عرب کا دورہ نہیں کیا۔
’پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بہت زیادہ بے تاب نہیں‘اسحاق ڈار نے کہاکہ پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نیوٹرل جگہ پر مذاکرات کی بات ہوئی تھی۔ بھارت سے انسداد دہشتگری پر بات ہوگی جو ہونی بھی چاہیے کہ دہشتگردوں کی فنانسنگ رُکنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ سندھ طاس معاہدے پر بھی بات ہوگی، لیکن ہم مذاکرات کے لیے بہت بے تاب (ڈیسپریٹ) نہیں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے 23 اپریل سے لے کر 10 مئی تک ہر چیز دنیا کو وضاحت سے بتائی ہوئی ہے۔
’پاکستان کی سفارتی کامیابیوں پر انڈیا میں ماتم ہو رہا ہے‘اس سے قبل نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اپنی حالیہ سفارتی سرگرمیوں پر میڈیا کو بریفنگ دینے کے لیے جب وزارت خارجہ کے آغا شاہی بلاک میں واقع میڈیا سینٹر آئے تو اُنہوں نے برائٹ بلیو کلر کا سوٹ پہن رکھا تھا اور خاصے ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے جس پر صحافی دوستوں نے اُن کی تعریف کی اور ایک نے تو نظر اتارنے کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن اسحاق ڈار اپنی وزارت کی حالیہ کامیابیوں سے خاصے مطمئن نظر آئے، اور ان کے لہجے کا اعتماد اس بات کی عکاسی کر رہا تھا۔
’پاکستان کو ڈیموں کی تعمیر کی اشد ضرورت، پانی کے بہاؤ میں کمی شاید موسمیاتی تھی‘اسحاق ڈار نے بتایا کہ بھارت پچھلے دو ڈھائی سال سے سندھ طاس معاہدے پر ہمارے ساتھ خط و کتابت کررہا ہے اور اُن کا آخری خط ہمیں 8 اپریل کو موصول ہوا، جس کا جواب ہمیں 8 مئی کو دینا تھا۔ 8 مئی کو دوران جنگ اس بات پر سوچ و بچار کی گئی کہ آیا بھارت کو جواب دیا جانا چاہیے یا نہیں لیکن پھر ہم نے اُن کو جواب دیا۔
سندھ طاس معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ بھارت گزشتہ دو ڈھائی برس سے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے، اور اسی سلسلے میں اُس نے 8 اپریل کو ایک خط بھی لکھا جس کا جواب 8 مئی کو دیا گیا، لیکن اس سے قبل بھارتی کابینہ اجلاس کے بعد وہ یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر چُکے تھے تو ہم نے اُنہیں بتایا کہ نہ تو یہ معاہدہ منسوخ ہو سکتا ہے اور نہ معطل کیا جا سکتا ہے۔
اُن سے سوال پوچھا گیا کہ پہلگام واقعے کے بعد گزشتہ کچھ دنوں میں پاکستانی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوئی ہے جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ اُس کی وجہ شاید موسمیاتی یا سیزنل ہوگی کیونکہ پانی کے بہاؤ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن انڈیا اگر ہمارا پانی روکنے کی کوشش کرے گا تو اُسے ڈیم تعمیر کرنا ہوں گے اور یہ اتنی جلدی ممکن نہیں۔
’کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا‘دوسری طرف اسحاق ڈار نے زور دیا کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ جب پاکستان میں ڈیم تعمیر کیے گئے تھے تو اُس وقت پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت زیادہ تھی جبکہ اب سلٹ بھر جانے کے بعد ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو کر 15 ملین ایکڑ فٹ تک رہ گئی ہے۔ تو اس لیے ڈیموں کی ضرورت ہے، کالاباغ ڈیم پر بات تو بہت پیچھے رہ گئی لیکن اُس ڈیم کی صورت میں ہم نے ایک موقع ضائع کردیا اور وہ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ آبی ذخائر کی صلاحیت کو دگنا کرنا ہوگا۔ اب پوری قوم کی ترجیح نئے آبی ذخائر کی تعمیر کو اپنی ترجیح بنانا ہو گا۔ وزیراعظم اور میں بجٹ سے فراغت کے بعد اس حوالے سے فعالیت سے کام شروع کریں گے۔
دہشتگردی پر افغانستان کے ساتھ کیا بات ہوئی؟وی نیوز کے سوال کہ دہشتگردی کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ کیا بات چیت ہوئی؟ اسحاق ڈار نے کہاکہ دونوں ممالک کے بیانات اور اُن میں استعمال کی جانے والی زبان کو دیکھیں تو آپ کو دونوں ممالک میں بہتر ہوتے تعلقات کا پتہ چلے گا۔ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں میں رابطہ ہے اور اُسی کے تحت ہی ہم دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ بھارت کے ساتھ 10 مئی کو ہونے والی جنگ کے حوالے سے ہم نے تعاون پر شکریہ ادا کرنے کے لیے چین کا دورہ کرنا تھا، کیونکہ 22 اپریل کو پہلگام واقعے کے بعد 23 اپریل کو میرا چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی کے ساتھ رابطہ ہوا۔ وہ اُس وقت کرغزستان میں تھے اور برکس اجلاس میں شرکت کے لیے برازیل جا رہے تھے۔ میری وہیں کرغزستان میں اُن سے بات چیت ہوئی جس میں، میں نے اُنہیں بتایا کہ کیسے بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ 19 مئی کو جب چین جانے کا فیصلہ ہوا تو چینی وزیرخارجہ نے پوچھا کہ اگر آپ کہیں تو ہم افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کو بھی مدعو کر لیں تو میں نے اثبات میں جواب دیا۔ لیکن اس سے قبل ہم چین کو بتا چُکے تھے کہ ہم افغانستان کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں اور پھر وہاں سفارتی تعلقات میں اضافے کا فیصلہ بھی ہوا۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ اپریل 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم حکومت کے دوران ہم نے تاجکستان، افغانستان اور پاکستان کے ذریعے ریلوے نیٹ ورک بنانے پر کافی کام کیا تھا۔ 19 مئی کو چین کے دورے پر ہم نے اس پراجیکٹ کے لیے چینی وزیر خارجہ سے بات کی جس پر انہوں نے مثبت جواب دیا۔ چین نے ہماری درخواست پر سی پیک ٹو کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا۔ تاجکستان، افغانستان پاکستان ریلوے کا سارا فریم ورک تیار ہے جبکہ افغانستان کچھ تفصیلات طے کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے سارا وسط ایشیا جڑ جائے گا، یہ ریلوے منصوبہ خرلاچی بارڈر کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کو باہم منسلک کرےگا۔
’تجارت بڑھانے سے متعلق امریکی صدر کے بیان کو بہت سنجیدہ لیا ہے‘اسحاق ڈار سے سوال کیا گیا کہ امریکی صدر نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتے ہیں تو کیا پاکستان نے اس معاملے میں کوئی عملی قدم اُٹھایا ہے؟ جس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے تجارت بڑھانے سے متعلق امریکی صدر کے بیان کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ ہم اس پر کئی زوم میٹنگز کر چُکے ہیں۔ ہماری امریکی انتظامیہ سے بات چیت چل رہی ہے، ہم اپنے ٹریک پر ہیں اور بھرپور کوشش کررہے ہیں۔
’پاک بھارت جنگ کا امکان نہیں اب صرف اُن کی سیاسی بیان بازی باقی ہے‘اسحاق ڈار نے کہاکہ روایتی جنگ میں بھارتی بالا دستی اور اُن کا نیونارمل کا بیانیہ ہم نے اُڑا دیا ہے۔ اب وہ صرف بِہار انتخابات کے لیے سیاسی بیان بازی کررہے ہیں، جو ان کی داخلی ضرورت ہے۔
اسحاق ڈار نے کہاکہ اب تک جو حتمی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اس کے مطابق بھارت کے 4 رافیل، ایک میراج اور ایک ایس یو 30 جہاز گرا ہے، اور انڈیا نے جو کہاکہ پاکستان کا ایف 16 گرایا ہے اب اُس بارے میں امریکا نے بھی کنفرم کیا ہے کہ کوئی ایف 16 نہ اڑا ہے نہ گرا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت جنگ بندی یا سیز فائر قائم ہے اور ٹائم لائن کے حساب سے مرحلہ وار جو جنگ بندی کے اہداف طے ہوئے تھے ان پر عملدرآمد ہو گیا ہے لیکن بھارتی وزیراعظم و وزیر دفاع کی جانب سے سیاسی بیان بازی جاری ہے جس کی وجوہات داخلی ہو سکتی ہیں۔ اگر بھارت میں سیاسی ہیجان ختم نہیں ہوتا تو اُس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس وقت جو صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ دونوں اطراف جنگ بندی اہداف مکمل کر چُکے ہیں۔ لیکن اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو ہم اپنی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
’پاک بھارت تنازع اور برطانوی کردار‘اسحاق ڈار نے کہاکہ گو کہ یہ خبر بتانے والی نہیں لیکن پھر بھی بتا دیتا ہوں کہ آپ کچھ دن بعد برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کو بھارت میں دیکھیں گے۔ اس سے قبل وہ پاکستان آئے تھے اور فون پر بھی اُن سے رابطے ہوئے۔ اس تنازع کے دوران برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کا بھی اہم کردار تھا۔
’بلاول بھٹو کی قیادت میں سفارتی وفد کی کامیابیاں، روس کو نظرانداز نہیں کیا‘پاک بھارت تنازع پر اسحاق ڈار نے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو کریڈٹ دیا جن کی وجہ سے متفقہ قرارداد منظور ہوئی اور دنیا میں یہ تاثر گیا کہ اس مسئلے پر یہ تمام لوگ یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ بلاول بھٹّوکی واشنگٹن میں اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اُنہوں نے پاکستان کے مؤقف کو دنیا تک پہنچایا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہاکہ اس سفارتی وفد میں پاکستان کے 4 سابق وزرائے خارجہ شامل ہیں جن میں بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر، خرم دستگیر اور جلیل عباس جیلانی شامل ہیں، جبکہ ہماری سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی وفد کا حصّہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری کی سرکردگی میں پاکستان کا وفد واشنگٹن پہنچ گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے بتایا کہ ہم نے روس کو نظرانداز نہیں کیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی روس گئے ہیں، وہ روسی زبان بہت اچھی بولتے ہیں اور وہاں روس میں بہت عرصہ رہ بھی چُکے ہیں اور وہاں اُن کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
’جولائی میں پاکستان کو سلامتی کونسل کی صدارت ملے گی‘اسحاق ڈار نے بتایا کہ جولائی میں پاکستان کو سلامتی کونسل کی صدارت ملے گی، جس کے پاس صدرات ہوتی ہے وہ کوئی موضوع تجویز کرتا ہے جس پر بحث ہوتی ہے۔ اس اجلاس میں چینی وزیرخارجہ ہماری خصوصی دعوت پر شرکت کریں گے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ اس مباحثے کے لیے پاکستان نے ایک عنوان تجویز کیا ہے اور وہ ’کثیر القومیتی مذاکرات کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کا فروغ اور تنازعات کا پرامن حل‘ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسحاق ڈار پاک بھارت جنگ بندی سعودی عرب دورہ سعودی عرب کا کردار شہباز شریف وزیر خارجہ وزیراعظم وی نیوز