اسلام آباد:

سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں اہم معاشی اہداف کی منظوری دے دی گئی۔

آئندہ مالی سال کے ممکنہ معاشی اہداف مقرر کرنے کے لیے وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیرِ صدارت سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں کمیٹی نےبجٹ 26-2025  کے لیے اہم معاشی اہداف کی منظوری دیدی۔

ذرائع کے مطابق  آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 4.

2 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر ایک ہزار ارب روپےخرچ کرنے کا پلان ہے۔ 2025-26  کے مقابلے میں صوبے 609 ارب روپے زیادہ خرچ کریں گے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کے لیے بیرون ملک سے 270 ارب قرض لے گی۔  اس کے علاوہ چاروں صوبے بھی 802 ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیں گے۔

پنجاب حکومت ترقیاتی منصوبوں پر 1190 ارب خرچ کرے گی۔ اگلے سال سندھ حکومت نے 887 ارب روپےکا ترقیاتی پروگرام تیارکیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی جانب سے 440 ارب روپے خرچ کرنے کا پلان ہے جب کہ بلوچستان حکومت اگلے سال ترقیاتی منصوبوں پر 280 ارب خرچ کرے گی۔

 آئندہ مالی سال کے لیےمعاشی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد رکھنےکی تجویز ہے۔ رواں سال معاشی شرح نمو 3.6 فیصد ہدف کےمقابلے 2.68 فیصد رہی۔ ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال میں مہنگائی کا ہدف 7.5 فیصدمقررکرنے کی تجویز ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلےسال زرعی شعبےکی ترقی کا ہدف 4.5 فیصد رکھا جائے گا۔ گندم، چاول سمیت اہم فصلوں کا ہدف 6.7 فیصد مقرر کرنےکی تجویز ہے۔ اسی طرح کاٹن جننگ کا ہدف7، لائیو اسٹاک ہدف 4.2 فیصد مقرر ہونے کا امکان ہے۔

علاوہ ازیں  بجٹ میں صنعتی شعبےکا ہدف 4.4 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ بڑی صنعتوں کا ہدف 3.5 فیصد،کان کنی کا ٹارگٹ 3فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ بجلی، گیس  اور پانی سپلائی کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ آئندہ سال تعمیراتی شعبےکا گروتھ ریٹ 3.8 فیصدمقررکرنےکی تجویز ہے۔ شعبہ خدمات کی ترقی کا ہدف 4 فیصد مقرر کیےجانے کا امکان ہے۔ قومی بچت کا 14.3 فیصد،سرمایہ کاری بہ لحاظ جی ڈی پی 14.7 فیصدہدف ہوگا۔

 اگلےمالی سال کے لیےکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 0.4 فیصد ہوگا جب کہ پبلک انویسٹمنٹ ہدف 3.2 اور نجی سرمایہ کاری کا ہدف 9.8 فیصد ہوگا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ترقیاتی منصوبوں معاشی اہداف کی تجویز ہے فیصد مقرر مالی سال کا ہدف 4

پڑھیں:

سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز

اسلام آباد:

حکومت امیروں سے پیسہ جمع کرنے کے نام پر سیلاب سے متعلق بحالی کے لیے ایک نیا منی بجٹ پیش کر سکتی ہے جس کے تحت کاروں، سگریٹ، الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے اور جون میں ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کے برابر درآمدی سامان پر لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت بعض ایسی اشیا کو ہدف بنانے پر غور کر رہی ہے جو امیر طبقے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح 1,100 سے زائد درآمدی سامان پر فیڈرل لیوی کے ذریعے مزید محصولات جمع کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کی منظوری دے دی تو یہ منی بجٹ محصولات کے خسارے کو کم کرے گا اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے رقم اکٹھی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

تاہم زیادہ تر ریلیف اور ریسکیو کا کام صوبے کر رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’ ایکسپریس ٹریبیون ‘‘ کو بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کے روز ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں فلڈ لیوی بل کے ذریعے حکومت کی ممکنہ تجاویز پر غور کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی اضافی آمدنی کی مقدار، شرح اور متاثرہ اشیا کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔

کم از کم 50 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے تاہم اصل رقم اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جولائی تا اگست 40 ارب روپے کا ٹیکس خسارہ سامنے آیا ہے جو اس ماہ کے اختتام تک بڑھ کر 100 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

اس اقدام سے آئی ایم ایف کے مالیاتی اہداف بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے ترجمانوں نے حکومتی منصوبوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ذرائع نے بتایا حکومت 5 فیصد لیوی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جو مخصوص قیمت کی حد سے زائد والے الیکٹرانک سامان پر لاگو ہوگی۔

اسی طرح ہر برانڈ اور قیمت سے قطع نظر ہر سگریٹ کے پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ٹیکس کے برعکس لیوی صرف وفاقی آمدنی ہوتی ہے اور ایف بی آر کے مجموعے کا حصہ نہیں بنتی۔

تاہم غیر ٹیکس محصولات مثلاً فلڈ لیوی سے ایف بی آر کے محصولات کے خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی لیوی کی آئینی حیثیت پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی۔

اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں بڑی صنعتوں کی پیداوار 9 فیصد بڑھنے کے باوجود ایف بی آر اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے حال ہی میں 213 ارب روپے کے جناح میڈیکل کمپلیکس اسلام آباد کی تعمیر کے لیے میونسپل ٹیکس کے نئے مجوزہ منصوبے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور تجویز یہ ہے کہ مخصوص انجن کیپسٹی سے زیادہ والی کاروں پر لیوی عائد کی جائے۔ ممکنہ طور پر 1800 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیاں نشانے پر ہوں گی۔

انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتیں حکومت کے بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے زیادہ ہیں جو کل قیمت کا 30 سے 61 فیصد تک بنتے ہیں۔

بجٹ میں حکومت نے تقریباً 1150اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کی تھی۔ اب وزارت خزانہ ان اشیا پر اتنی ہی شرح کی لیوی لگانے پر غور کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس
  • معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کی قلعی کھل گئی
  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی منظوری کے بعد ہراسمنٹ کمیٹی کا سربراہ تبدیل
  • سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کا اجلاس، کراچی برانچ رجسٹری کے ماسٹر پلان کی منظوری