بھارتی مسلمانوں کے خلاف قانون کی آڑ لے کر مودی سرکار کی جنگ جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
بھارت میں نام نہاد قوانین کی آڑ لے کر مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔
مودی کے دور حکومت میں بھارت میں تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لیے مذہبی تہوار منانا جرم بنا دیا گیا ہےاور عید قرباں آتے ہی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھانا شروع کردیا گیا ہے۔
بھارتی اخبار نیشنل ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق مودی کی سرپرستی میں اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عید قرباں کے قریب آتے ہی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
نیشنل ہیرالڈ کے مطابق اُتر پردیش میں گائے اور اونٹ سمیت دیگر جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یو پی میں کھلی جگہ پر نماز کی ادائیگی اور جانور ذبح کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
اسی طرح ہندو انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے حکم کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
اتر پردیش میں گائے سمیت دیگر جانوروں کی قربانی پر پابندی لگا کر مسلمانوں کے بنیادی حق کو کچلا جا رہا ہے۔ کھلی جگہ پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر کے مودی سمیت یوگی حکومت کی مسلم دشمنی کھل کر عیاں ہو چکی ہے۔
ہر عید پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا مودی اور یوگی حکومت کی پرانی روایت ہے۔ مودی کی زیر سرپرستی پولیس حکام بھی صرف مسلمانوں پر کارروائی کے لیے متحرک ہیں اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی عید پر بندشیں اور ہندو تہواروں پر انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ، مودی کی جانب سے ہندوتوا نظریے کو پروان چڑھانا ہے۔ یوپی میں مسلم شناخت کو مٹانے کی ریاستی کوششیں جاری ہیں اور قربانی سے نماز تک ہر عبادت مودی سرکار کے نشانے پر آ چکی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کے بھارت میں کے خلاف
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔