UrduPoint:
2025-11-03@20:12:32 GMT

کیا پاکستان بدل رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

کیا پاکستان بدل رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کئی دنوں تک پاکستانی سوشل میڈیا پر پاکستان ایئر فورس کے اورنگزیب احمد ٹرینڈ کرتے رہے۔ انہیں قومی کرش کا خطاب دے دیا۔ ہر پلیٹ فارم پر انہی کا نام اور انہی کی تعریفیں نظر آ رہی تھیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تعریفیں خواتین کی جانب سے کی جا رہی تھیں۔

ماضی میں بھی انٹرنیٹ پر مختلف شخصیات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں پسندیدگی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ تاہم، وہ اظہار مردوں کی طرف سے خواتین کے لیے ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال گلوکارہ مومنہ مستحسن ہیں۔ جب ان کا راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا ریلیز ہوا تو لوگوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ان کا نام آئے دن ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ٹرینڈ کر رہا ہوتا تھا۔

ایک دن کسی نے ان کی منگنی کی افواہ پھیلا دی۔ پھر وہی ہنگامہ مچا کہ انہیں خود ٹویٹ کر کے اس افواہ کی تردید کرنا پڑی۔

اسی طرح تُرک اداکارہ اسرا بلجیک کو ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی میں حلیمہ سلطان کے کردار میں لوگوں نے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ان کے بھی بہت سے قدردان بن گئے تھے۔ ان مداحوں نے جب اسرا کی انسٹاگرام پر موجود تصاویر دیکھیں تو خاصے دکھی ہوئے اور ہر پوسٹ پر انہیں اصل زندگی میں بھی حلیمہ سلطان بننے کی ترغیب دینے لگے۔

بالآخر اسرا کو مجبوراً اپنے انسٹاگرام پر کمنٹس بند کرنا پڑے۔

پاکستانی خواتین کی جانب سے کسی مرد کے لیے اس سطح کی پذیرائی کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ وہ عموماً کم گو، شرمیلی اور محتاط سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم سابق کرکٹر اور وزیرِ اعظم عمران خان کی بہت سے خواتین مداح تھیں۔ اسی طرح ”چاکلیٹی ہیرو" کے لقب سے مشہور پاکستان کے مایہ ناز اداکار وحید مراد کے لیے بھی خواتین میں ایک الگ ہی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔

لیکن اتنی بڑی سطح پر ایک درمیانی عمر کے مرد کے لیے خواتین کے جذبات کے اس طرح کے اظہار کی مثال شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملی ہو۔

پاکستان جیسے معاشروں میں لڑکیوں کو بچپن سے ہی اپنے جذبات اور احساسات چھپا کر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ان کا اونچی آواز میں بولنا، ہنسنا یا اپنے انداز کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں آنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

بہت سی لڑکیاں اور خواتین صرف پسند کی شادی کی خواہش پر قتل کی جا چکی ہیں۔ کئی علاقوں اور خاندانوں میں آج بھی خواتین کا اپنے شوہروں کو نام لے کر پکارنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

تو کیا اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ثقافت میں کوئی بڑا بدلاؤ آ چکا ہے؟

کہیں نہ کہیں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک بڑا فرق ٹیکنالوجی کا ہے۔

آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ دنیا کے ایک کونے کی خبر چند سیکنڈ میں دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے ممالک، اقوام اور ثقافتوں کے درمیان سرحدیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہماری موجودہ نسل اس دنیا میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ وہ ایک عالمی ثقافت کی پیروی کرتی ہے جو انہیں اپنے جذبات کو دبانا نہیں بلکہ ان کا اظہار کرنا سکھاتی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ”نیٹ ورکڈ پبلکس" کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ایسے نیٹ ورکس ہوتے ہیں جہاں لوگ دیگر ہم خیال افراد کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز انہیں اپنی شناخت خود تخلیق کرنے کی طاقت دیتے ہیں اور وہ اپنی اس شناخت کو اپنی مرضی کے مطابق دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہاں وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، اختلافِ رائے کرتے ہیں اور وہ سب کچھ کہتے ہیں جو حقیقی دنیا میں کہنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔

یہ پلیٹ فارمز اپنے مختلف فیچرز جیسے شناخت کو چھپانے کی سہولت، پرائیویسی سیٹنگز اور مرضی کے افراد کے ساتھ رابطہ بنانے کی صلاحیت کی مدد سے صارفین کو وہاں ایک قسم کی ورچوئل آزادی فراہم کرتے ہیں۔

کچھ پلیٹ فارمز کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہاں انسان کے لیے اپنے اندر کے جذبات کو باہر نکالنا تقریباً ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایکس پر لوگ چند الفاظ میں اپنے احساسات بیان کرتے ہیں۔

وہ دن میں متعدد بار ایپ کھولتے ہیں اور اپنے دل و دماغ میں آنے والے جذبات کو وہاں پوسٹ کرتے ہیں۔ چند سیکنڈز میں وہ پوسٹ یا تو وائرل ہو جاتی ہے یا دیگر پوسٹس کے انبار تلے دب جاتی ہے۔ پہلی صورت میں صارف کو مختصر دورانیے کی شہرت ملتی ہے جو ان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔

ان عوامل سے متاثر ہو کر صارفین نہ صرف گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

جن موضوعات پر اچانک زیادہ بات شروع ہو جائے وہ ٹرینڈز بن جاتے ہیں۔ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے خوف یا ”ڈیجیٹل خاموشی" کے احساس سے بچنے کے لیے بھی لوگ ان مباحثوں میں لازمی شرکت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ رجحانات عارضی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی نیا پن ختم ہوتا ہے، صارفین کی توجہ کسی اور جانب مڑ جاتی ہے یا پلیٹ فارم کے الگورتھمز کسی اور مواد کو ترجیح دینے لگتے ہیں، پھر ٹرینڈ کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور وہ مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

کچھ عرصہ پہلے مسرت نذیر کا ”آہستہ آہستہ" گیت وائرل ہوا تھا۔ اور ایسا وائرل ہوا تھا کہ ہر ریل میں وہی سنائی دیتا تھا۔ پھر غائب ہوگیا۔ عیدالفطر سے پہلے ”فرشی شلوار" کا ٹرینڈ آیا تھا مگر وہ بھی کچھ دنوں میں غائب ہو گیا۔ اسی طرح اورنگزیب احمد کا ٹرینڈ بھی اچانک منظر پر آیا اور اچانک ہی چلا گیا۔

اس ٹرینڈ کے بعد کچھ افراد نے خواتین کو شرم دلانے کی بھی کوشش کی حالانکہ یہ رویہ نہ صرف ان کی طرف تنقیدی شعور کی کمی کی عکاسی کر رہا تھا بلکہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ وہ ہمارے معاشرے میں آنے والی بتدریج تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہے۔

اورنگزیب احمد کے ٹرینڈ پر ہونے والی گفتگو نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب خود کو چپ کرانے والے اصولوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نئی دنیا کے تقاضوں کے ساتھ چل رہی ہے جہاں اظہار جرم نہیں بلکہ شناخت ہے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ، یہ نسل ایسی دنیا میں جی رہی ہے جہاں کچھ بھی مستقل یا طویل المدت نہیں ہے۔ ان کی دنیا میں سب کچھ ایک مختصر مدت کے لیے ہوتا ہے اور وہ مدت دن بہ دن مزید مختصر ہوتی جا رہی ہے۔

ایسے میں ان سے مستقل مزاجی یا یکسانیت کی امید شاید غیر حقیقی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے اظہار کو سمجھیں، ان کے انداز کو سنیں اور ان کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھیں کیونکہ یہ نسل نہ صرف سوال اٹھا رہی ہے بلکہ اپنے لیے راستہ بھی خود بنا رہی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پلیٹ فارمز دنیا میں کرتے ہیں کے ساتھ جاتی ہے ہوتی ہے رہی ہے کے لیے اور وہ کے بعد

پڑھیں:

’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔

ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔

جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔

میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔

ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔

انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔

اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘

متعلقہ مضامین

  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • بابراعظم کی فارم واپس آنے سے ڈریسنگ روم کا اعتماد بحال ہورہا ہے، شاہین شاہ آفریدی
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • سیاست سہیل آفریدی کا حق، اپنے صوبے کے معاملات دیکھنا بھی ان کی ذمہ داری: عطا تارڑ
  • ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • سوڈان کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کا تبصرہ
  • وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے ہیں، میرا کیریئر بھی تباہ کیا؛ عمر اکمل