سوڈان میں انسانی ہونٹوں کی طرح دِکھنے والی پہاڑی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
سوڈان کے مغربی دارفور کے علاقے میں ایک حیرت انگیز قدرتی پہاڑی موجود ہے جو انسانی ہونٹوں سے مشابہت رکھتی ہے۔
اسے غیر رسمی طور پر "لینڈ لاکڈ لپس" (Landlocked Lips) کہا جاتا ہے۔ یہ مغربی دارفور، سوڈان کی سرحد سے تقریباً 95 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ اس کا طول تقریباً 900 میٹر اور چوڑائی تقریباً 350 میٹر ہے۔
یہ پہاڑی 2012 میں گوگل ارتھ کی سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے منظرِ عام پر آئی جس میں یہ واضح طور پر انسانی ہونٹوں کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ساخت دو متوازی چٹانی پر مشتمل ہے جو اوپر سے دیکھنے پر ہونٹوں کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ یہ قدرتی مظہر زمین کی ساختیاتی تبدیلیوں اور کٹاؤ کے عمل کا نتیجہ ہے۔
اگرچہ یہ پہاڑی ایک قدرتی تشکیل ہے لیکن سوڈان اور آس پاس کے علاقوں میں ہونٹوں کی علامتی اہمیت بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ قبائل میں ہونٹوں پر ٹیٹو یا زیورات کا استعمال خوبصورتی اور سماجی حیثیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی اس ثقافتی پس منظر کے تناظر میں مزید دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جِلد سے ٹیٹو کو مٹانے والی جدید کریم
نووا اسکوٹیا میں ڈیل ہاؤسی یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی طالب علم نے جلد پر سے ٹیٹو مٹانے کے لیے ایک کریم تیار کی ہے جسے Bisphosphonate Liposomal Tattoo Removal کریم کہتے ہیں۔
طالب علم اور ریسرچر کا نام Alec Falkenhamایلک فالکنہیم ہے جو پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔
دراصل ٹیٹو کا رنگ جلد میں سفید خلیات (macrophages) میں جذب ہوتا ہے۔ کچھ خلیات جلد میں سرگرم رہتے ہیں اور کچھ غیرفعال ہوتے ہیں جو ٹیٹو کی واضح تصویر بناتے ہیں۔
یہ جدید کریم liposomes استعمال کرتی ہے جن میں bisphosphonate شامل ہے۔ یہ اُن macrophages کو ٹارگٹ کرتا ہے جن پر ٹیٹو کا رنگ چڑھ گیا ہوتا ہے۔
اس کریم سے جب نئے macrophages آتے ہیں تو وہ liposome کو کھا کر رنگدار macrophages کو ختم کردیتے ہیں اور اس طرح ٹیٹو کا رنگین مواد جلد سے نکل جاتا ہے۔
اس کریم کا فائدہ سب سے بڑا یہ ہے کہ یہ کم دردناک ہے۔ روایتی طریقہ لیزر کا ہوتا ہے جو بہت تکلیف دہ امر اور نشان چھوڑنے والا ہوتا ہے۔ یہ مہنگا بھی ہوتا ہے۔
کریم کا استعمال کم لاگت والا بھی ہے۔ اگر خام مال اور تیاری مناسب ہو تو علاج کی قیمت نسبتاً کم ہے۔
اس میں جسمانی نقصان بھی کم ہوتا ہے۔ جلد کی اوپری تہہ کو براہِ راست نقصان پہنچانے کے بجائے صرف خلیوں کا ہدف ہوتا ہے جس سے نشان پڑنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔