غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے ویٹو کردی، 14 ارکان کی حمایت کے باوجود منظوری نہ مل سکی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی قرارداد امریکا کے ویٹو کے باعث منظور نہ ہو سکی۔ 15 رکنی کونسل میں سے 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، مگر مستقل رکن امریکا نے ویٹو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسے روک دیا۔
یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 غیرمستقل ارکان الجزائر، ڈنمارک، یونان، گنی، پاکستان، پاناما، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلوانیہ اور صومالیہ نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی جائے، جس کا احترام تمام فریقین کریں۔
یرغمالیوں کی رہائی کا اعادہقرارداد کے متن میں حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کی قید میں موجود تمام یرغمالیوں کی فوری، باعزت اور غیرمشروط رہائی کے مطالبے کو ایک بار پھر دہرایا گیا۔ ساتھ ہی غزہ کی گمبھیر انسانی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی گئی، جہاں کئی ماہ سے اسرائیلی محاصرے کے باعث قحط کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین پہلے ہی اس کی تصدیق کر چکے ہیں کہ غذائی بحران سنگین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں امداد کی تقسیم کے دوران اسرائیلی حملے، اقوام متحدہ نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا
انسانی امداد کی بحالی پر زورقرارداد میں غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹوں کو فوری طور پر ختم کرنے، اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت داروں کو محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی دینے، اور ضروری خدمات کی بحالی کا مطالبہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ، امدادی اصولوں اور ماضی کی سلامتی کونسل قراردادوں کے مطابق بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو پر بھی زور دیا گیا۔
مرحلہ وار جنگ بندی کی حمایتقرارداد میں مصر، قطر اور امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 (2024) کی روشنی میں جنگ بندی کے مرحلہ وار منصوبے کی حمایت کی گئی، جس میں مکمل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، ہلاک شدگان کی باقیات کی واپسی، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی اور غزہ کی تعمیر نو جیسے نکات شامل ہیں۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو فلسطینی خوراک لینے آتے ہیں، وہ گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، اقوام متحدہیہ قرارداد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں انسانی بحران انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں طبی سہولیات قریباً ختم ہو چکی ہیں، جبری نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اسرائیل و امریکا کے قائم کردہ نئے امدادی نظام کے تحت اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے یہ نیا نظام اقوام متحدہ کے اداروں کو نظرانداز کرتے ہوئے خود ترتیب دیا ہے۔
جنوبی غزہ میں اسی نظام کے تحت قائم ایک امدادی مرکز پر فائرنگ کے واقعے میں کئی فلسطینی جاں بحق ہوئے، جس پر اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو فلسطینی خوراک لینے آتے ہیں، وہ ہر روز گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا ویٹو سلامتی کونسل غزہ جنگ بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا ویٹو سلامتی کونسل سلامتی کونسل اقوام متحدہ
پڑھیں:
سلامتی کونسل میں غزہ پرقراردادکو امریکا کی جانب سے ویٹو کرنے پر عالمی برادری کا شدید ردعمل
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جون ۔2025 )امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور محصور علاقے میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کی اپیل پر مبنی قرارداد کو ویٹو کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکہ نے اپنے اقدام کو اس دلیل کے ساتھ درست قرار دیا کہ یہ متن اس تنازع کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے.(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے کے مطابق فرانس اور برطانیہ کے سفیروں نے ووٹنگ کے نتائج پر افسوس کا اظہار کیا جب کہ چینی سفیر فو کونگ نے براہ راست امریکہ کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے سیاسی مفادات سے دست بردار ہو کر منصفانہ اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنے کی دعوت دی. الجزائر کے سفیر عمار بن جامع نے کہا کہ خاموشی نہ مردوں کا دفاع کرتی ہے، نہ مرتے ہوﺅں کا ہاتھ تھامتی ہے اور نہ ہی ظلم کے نتائج کا سامنا کرتی ہے پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے امریکی ویٹو پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی اجازت اور سلامتی کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ قرار دیا. سلووینیا کے سفیر سموئیل زبوگار نے کہا کہ جب انسانیت کو غزہ میں براہ راست آزمائش کا سامنا ہے، تو یہ قرارداد ہمارے مشترکہ احساسِ ذمہ داری سے جنم لے چکی ہے یہ ذمہ داری ہم غزہ کے عام شہریوں اسیر اسرائیلیوں اور تاریخ کے سامنے ادا کرتے ہیں. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاﺅس میں بطور صدر واپسی کے بعد یہ پہلا ویٹو ہے جو واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں استعمال کیا ہے ووٹنگ سے قبل امریکی مندوب ڈورتھی شیا نے کہا کہ یہ قرارداد ایسی جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گی جو زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہو اور حماس کی حوصلہ افزائی کرتی ہو نیزیہ قرارداد اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک جھوٹی مساوات قائم کرتی ہے. انہوںنے کہا کہ یہ متن نہ صرف اس وجہ سے ناقابل قبول ہے کہ اس میں کیا درج ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس میں کیا شامل نہیں کیا گیا انہوں نے اسرائیل کے اپنے ”دفاع کے حق“ پر زور دیا سلامتی کونسل جس میں پندرہ رکن ممالک شامل ہیں کی جانب سے غزہ کی جنگ پر پہلا ووٹ تھا جو نومبر کے بعد ہوا اس سے قبل سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے ایسی ہی ایک قرارداد کو روکا تھا جو جنگ بندی کا مطالبہ کرتی تھی اور یہ جنگ تقریباً 20 ماہ سے جاری ہے. سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ کے بارے میں آخری قرارداد جون 2024 میں منظور ہوئی تھی جس میں ایک امریکی منصوبے کی حمایت کی گئی تھی جو مرحلہ وار جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مشتمل تھی تاہم جنگ بندی جنوری 2025 تک موثر نہ ہو سکی حالیہ قرارداد کو سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان نے پیش کیا جس کے حق میں 14 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں صرف امریکہ نے ووٹ دیا. قرارداد میں فوری غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی اور قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ساتھ ہی غزہ میں تباہ کن انسانی صورت حال پر روشنی ڈالی گئی اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ، فوری اور غیر مشروط رسائی پر زور دیا گیا تاکہ اقوام متحدہ سمیت دیگر فریقین کی جانب سے امداد محفوظ اور موثر طریقے سے پہنچائی جا سکے. اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہاکہ آپ سلامتی کونسل میں غصہ دیکھ رہے ہیں اور پھر بھی بے بسی کو قبول کرتے ہیں؟ آپ کو حرکت میں آنا ہو گا انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار ٹام فلیچر کے اس خطاب کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے غزہ میں نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا.