روسی صدر پیوٹن کی ایران کے جوہری تنازع پر ثالثی کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایران اور امریکا کے درمیان جوہری تنازع کو حل کرنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔
روسی صدارتی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ روس کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور صدر پیوٹن تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مسائل پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 4 جون کو پیوٹن سے ٹیلیفون پر بات کی، جس کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ روسی صدر ایران کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔
یاد رہے کہ 2018 میں امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ ایک نئے معاہدے کی خواہش ظاہر کر رہی ہے، مگر وہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف، ایران کا مؤقف ہے کہ اسے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امریکا کی تجویز ایران کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔
روسی صدر کی اس پیشکش سے امید کی جا رہی ہے کہ جوہری تنازع کا سفارتی حل نکل سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب روس اور ایران کے دفاعی تعلقات بھی مضبوط ہو چکے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران کے
پڑھیں:
ضرورت پڑی تو دوبارہ حملہ کردیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ حملے کی دھمکی دے دی۔ ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے تہران کو متنبہ کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی فضائی حملے ایران کی جوہری تنصیبات کو “صفحۂ ہستی سے مٹا چکے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو امریکا دوبارہ حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرے گا۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کے اس اعتراف کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے امریکی و اسرائیلی بمباری کے باعث ایرانی جوہری تنصیبات کو ”شدید نقصان“ پہنچنے کا اعتراف کیا۔
عراقچی کے مطابق ایران کا جوہری پروگرام فی الحال رک چکا ہے، لیکن ایران یورینیم کی افزودگی سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔
حملے کے بعد صدر ٹرمپ کی ایران کو سخت وارننگ: ’جوابی کارروائی پر پہلے سے کہیں زیادہ شدید طاقت کا مظاہرہ کریں گے‘
واضح رہے کہ 2 جون کو امریکی فضائیہ نے B-2 بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے حساس ترین جوہری مقامات ، نطنز، فردو اور اصفہان کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں فردو کا وہ زیرِ زمین مرکز بھی شامل تھا جو نصف میل گہرائی میں واقع ہے۔
سی آئی اے، امریکی محکمہ دفاع اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ان حملوں کو ”ایران کے ایٹمی ڈھانچے کے لیے کاری ضرب“ قرار دیا ہے۔
سی آئی اے ڈائریکٹر جون ریٹکلف کے مطابق، 18 گھنٹوں میں 14 انتہائی طاقتور ”بنکر بسٹر“ بم گرائے گئے، جنہوں نے زیرِ زمین تنصیبات کو تباہ کر دیا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے بھی اس نقصان کو ”انتہائی شدید“ قرار دیا۔
اسرائیلی جوہری توانائی ادارے نے بھی تصدیق کی ہے کہ فردو کا مقام ”ناقابلِ استعمال“ ہو چکا ہے جبکہ نطنز میں سینٹری فیوجز ناقابلِ مرمت ہیں۔ ان کے مطابق ایران حملوں سے پہلے افزودہ یورینیم کو منتقل کرنے میں ناکام رہا، جس سے اس کے ایٹمی عزائم کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ پروگرام متاثر ہوا مگر افزودگی سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔
عباس عراقچی نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران فی الوقت امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتا۔