مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 8th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تحریر: ضرار کھوڑو
کچھ روز قبل 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔
ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔ ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔
اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔ دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔ دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔
تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔
سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔
آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.
dawn.com/news/1914867/the-third-temple
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسجد الاقصی بھی حاصل ہے کی تعمیر نو انہیں بہت کی حمایت تعمیر کی کے مطابق کرتے ہیں ہے جو ا کے لیے
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین