Jang News:
2025-09-18@14:53:15 GMT

شیخ رشید کس بات پر رو پڑے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT

شیخ رشید کس بات پر رو پڑے؟

---تصاویر بشکریہ سوشل میڈیا

سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کی عید قرباں کے موقع پر نجی ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں وہ والدہ کو یاد کر کے رو پڑے۔ 

پاکستان کے سینئر سیاستدان شیخ رشید احمد عیدالاضحیٰ پر ایک بالکل مختلف انداز میں نظر آئے۔ وہ ہمیشہ اپنی پیش گوئیوں اور سادہ مگر برجستہ اندازِ گفتگو کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں، مگر اس بار اُن کے جذباتی لمحے نے سب کو حیران کر دیا۔

شیخ رشید احمد نے اپنے حلقۂ انتخاب، اہلِ خانہ اور ووٹرز کے ساتھ عید منائی، تاہم قربانی کے وقت انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کی اور اس دوران وہ اپنی مرحوم والدہ کو یاد کرکے رونے لگے۔

شیخ رشید چاند رات پر کس سے ملنے گئے؟

سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے چاند رات کے موقع پر اپنی مرحومہ والدہ کی قبر پر حاضری دی۔

شیخ رشید گفتگو کے دوران جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور کہا میری ماں بہت مضبوط خاتون تھیں، ہم میں بہت جھگڑے ہوتے تھے جب میں چھوٹا تھا، لیکن وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں، آج جب میں قربانی کر رہا ہوں، ان کی بہت یاد آ رہی ہے۔

شیخ رشید ماضی میں بھی متعدد بار اپنی والدہ سے محبت اور ان کے اثرات کا ذکر کرتے آئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میری کامیابی، طالب علمی، سیاست سے لے کر قومی اسمبلی تک سب کچھ میری ماں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

ویڈیو دیکھنے والے بھی ان کے دکھ میں شریک ہوئے، سوشل میڈیا پر شیخ رشید کے اس لمحے کی ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب عوام نے ایک سخت لہجے والے سیاستدان کو ایک بیٹے کی طرح ٹوٹتا اور یادوں میں بکھرتا دیکھا۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟

2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔

اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔

اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔

اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔

نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ابھیشیک سے علیحدگی؟ ایشوریا رائے والدہ کے گھر بار بار کیوں جاتی ہیں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • نادرا لاہور ریجن میں ’’میری شناخت، میرا تحفظ‘‘ کے موضوع پر خصوصی آگاہی ہفتہ شروع
  • سرزمین بلوچستان کا وقار، کیپٹن وقار احمد شہید
  • طلاق کی افواہوں کے دوران ایشوریا رائے بچن کی والدہ سے ملاقات کی اصل وجہ سامنے آگئی
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • بشریٰ بی بی کی جیل سہولیات سے متعلق تہلکہ خیز بیان
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟