حمیداللہ بھٹی
خطا اولادِ آدم کا وصف ہے مگر جب کسی خطاکار کو طاقت و مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو نسلِ انسانی پرہی قہربن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتاہے۔ زمانہ شاہد ہے مقبولیت حاصل ہوتے ہی گمراہ ہوکر حضرت انسان وہ تباہی و بربادی کرتا ہے کہ داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔انسان ہی انسان کا دشمن بن جاتا ہے مقبولیت کا مطلب تو محبت ہے مگر انسان کو یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا آکر مقبولیت چھین کر خود مقبول نہ ہو جائے انسان کو طاقت مل جائے تو خود کو محفوظ بناتے ہوئے لوگوں کو کچلنے لگتا ہے ۔اِس طاقت و مقبولیت نے دنیا میں وہ قہر ڈھائے ہیں جس کی کوکھ نے جنگوں کو جنم دیا جن کے دوران لاکھوں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ خامیوں و کوتاہیوں سے سیکھناہی دانشمندی ہے مگر دنیاکی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو انسان کادشمن انسان ہی نظر آتا ہے۔ مملکتوں کی آبادی ورقبے میں اضافے سے طاقت و مقبولیت کی قہر ناکی کووسعت ملی مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے ۔فتح کے ہزاروں دعویدارجبکہ شکست لاوارث ہوتی ہے یہ تاریخ کا سبق ہے۔
جدید فرانس کا بانی نپولین بونا پارٹ ایک مقبول اور بہادر آدمی تھا۔ عوام کی محبت کو اُس نے دائمی سمجھ لیا اور کوشش کرنے لگا کہ صرف فرانس ہی کیوں وہ تو سارے یورپ کا شہنشاہ بن سکتا ہے۔ یہ زعم بھی ہو گیا کہ فرانس کی طرح پورے یورپ میں مقبول ہے۔ اسی خود پسندی نے بستیاں اور مملکتیں تاراج کرادیں۔یورپ کی سربراہی حاصل کرنے کے چکر میں لاکھوں مرد وزن قتل کرادیے اور پھر جب انگلینڈ کو مطیع باج گزار بنانے کے سفرکا آغاز کیاتوبڑھتے قدم رُک گئے ۔اِس سفر سے عروج کو زوال نے آگھیرا۔بیلجیئم کے علاقے واٹر لوکے مقام پر شکست ہوئی اور گرفتار ہوکر عمر کے آخری ایام ملک سے دورایک قیدی کی حیثیت سے بسرکیے ۔اِس طرح لوگوں کو قیدی بنانے کے چکر میں خود ہی قیدی بن گیا۔ فرانس نے اُس کی باقیات لاکر پیرس کے مضافات میں ایک مقبرے میں دفن کررکھی ہیں،جہاں راقم نے ہوکامنظر دیکھا عام لوگ تو کُجا سیاحوں کی آمدبھی محدودہے۔ ایک مقبول اور بہترین جنگجو نپولین بوناپارٹ تاریخ کاایساکردار ہے جس کی خوبیوں پر خامیاں حاوی ہیں۔ کاش انسان طاقت و مقبولیت کو قہر بنانے سے گریز کرے۔
جان ایف کینڈی کی طاقت و مقبولیت کازمانہ شاہدہے۔ اُسے بھی یقین ہوگیا کہ دنیا کے لیے ناگزیر ہے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ روس کو براہ راست جوہری جنگ کی دھمکی دے دی ۔یہ ایسی دھمکی تھی جس سے دنیا کی تباہی یقینی تھی لیکن کب طاقت و مقبولیت کا پہیہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف گھومنے لگے؟ یہ انسان نہیں جان پاتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جان ایف کینڈی کو ایسے حالات میں گولی لگی کہ اُس کا سر ایک ناتواں بچے کی مانند اپنی بیوی کی گود میںتھا اور اسی حالت میںدم توڑ دیااورمٹی کی چادر اوڑھ لی توکوئی ہے ایسا دانشمند جوعبرت حاصل کرے ؟مگر تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی حکمران تاریخ سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا تاآنکہ طاقت و مقبولیت چھن جائے ۔
بینجمن نیتن یاہو اسرائیلی وزیرِ اعظم ہے اِسے اپنی مقبولیت بڑھانے کا جنون ہے اُس نے طاقت کے بے جا اظہارکواپنا ہتھیار بنا لیا ہے یہ سفاک شخص انسانوں کے قتل پر فخر کرتا ہے اور جو قتل ہونے سے بچ جائیں اُنھیں بھوک سے مارنے کی کوشش میںہے یہ بے رحم و سفاک شخص اپنے مقاصد کے لیے انسانی خون بہانے پر ذرا شرمسار نہیں لہو لہو غزہ اِس کے جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ رحم جیسے جذبے سے کوسوں دور ہے ۔یہ مرنے والوں کی تعداد پوچھتا ہے اور پھر ایک خون آشام دیو کی طرح مسلم نسل کشی میں دوبارہ مصروف ہوجاتا ہے لیکن کیا اُس کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور تاریخ اُسے اچھے نام سے یادکرے گی؟ناممکن ۔کچھ بھی تو دائمی نہیں جو دنیا میں آیا ہے ایک روز اُسے جانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اچھی یادیں چھوڑی جائیں مگر اسے مسلمانوں کاخون بہانااورمارنا مرغوب ہے۔ کب اِس سے طاقت و اختیار کا ہتھیارکب چھنتا ہے نگاہ منتظرہے۔
شیخ حسینہ واجد مسلم ملک بنگلہ دیش کی تین بار وزیرِ اعظم ر ہیں ۔یہ خود بھی مسلمان تھیں اور ملک کی مقبول ترین خاتون کا اعزازبھی رکھتی تھیں۔ یہ اپنی مقبولیت کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ ایک وقت آیا کہ اُسے اپوزیشن جماعتیں خطرہ محسوس ہونے لگیں جس کاتوڑ گرفتاریاں اورپھانسیاں دیناسمجھ لیاگیا مگرجب اپوزیشن جماعتوں پر پابندیاں لگا کر انتخابی عمل سے ہی باہر کیاجانے لگا تو مخالفانہ تحریک زورپکڑنے لگی ۔اسے پھر بھی عقل نہ آئی ہزاروں افراد کو قتل کرادیا۔ آج عبرت کا نمونہ بنی اِس حال میں بھارتی شہر اگرتلہ میں مقیم ہیں کہ صرف جنونی مودی ہی اُسے دوست تصورکرتاہے۔ بنگلہ دیش میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ اُس کے باپ سے منسوب یادگاریںمٹانے کے ساتھ کرنسی نوٹوں سے تصویر تک ہٹادی گئی ہے۔ اس کے لیے ملک میں واپسی کابظاہر اب کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ مخالفانہ تحریک کے دوران ہزاروں بے گناہوں کاقتل ثابت ہوچکاہے۔ لہٰذا شاید جلاوطنی میں ہی آسودہ خاک ہو ناقسمت ہو۔اگر مقبولیت و طاقت کومثبت مقاصد کے یے استعمال کرتیں تو آج کم از کم انجام کچھ تو بہتر ہوتا۔
بھارت کے نریندرامودی کوکون نہیں جانتا گجرات کے قصاب کے لقب سے معروف اِس شخص کی سیاست مسلم دشمنی ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے ملک سے مسلمانوں ، عیسائیوں،سکھوں،بدھ مت اور نچلی ذاتوں کوختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ انتخاب جیتنے کے لیے مداری کی طرح ہر بار کوئی نیا دائو آزماتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی خامیاں بُھلا کر ہندواکثریت اُسے ووٹ دے دیتی ہے لیکن اِس بار ریاستی انتخابات سے قبل عوام کو کچھ نیا اور منفرد بتانے کی کوشش کی جموں کشمیر کے علاقے پہلگام میںاپنے اِداروں سے سیاحوں پر حملہ کرایا۔ مزید اشتعال انگیزی یہ کہ پاکستان کی فضائی حدودپا مال کرنا شروع کردیں۔ اِس حرکت کے دومقاصد تھے اول ہندوئوں کوباور کرانا کہ وہ مسلمانوں پرحملہ آورہے ۔دوم خطے سے بھارتی بالادستی تسلیم کرانا لیکن دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ فضائی جھڑپ میں واضح شکست سے اب نہ صرف مودی کامزید عرصہ اقتدارمیں رہنا دشوار ہے بلکہ ملک ٹوٹنے کابھی خدشہ ہے۔ اگر یہ جنونی شخص بھلائی کے کام کرتا نفرت پھیلانے کی بجائے ملک میں افہام وتفہیم کی فضا بناتاتو ملک میں ایسے حالات ہرگز نہ ہوتے ۔ایک شکست سے اُس کی مخفی خامیاں بھی اُجاگر ہوئی ہیں اور اب یہ جنونی شخص تاریخ کے اوراق کا ایک بدنما داغ بننے کے قریب ہے۔
مگر خطااولادِ آدم کاوصف ہے اور جب کسی خطاکار کو طاقت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے توکسی اور پر نہیں، نسل انسانی پر ہی قہر بن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتا ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: طاقت و مقبولیت مقبولیت کا اور پھر کے لیے ہے اور
پڑھیں:
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام سے الہام لیکر طوفان الاقصیٰ آپریشن کو منظم اور کامیاب کرنیوالے یحییٰ سنوار کی روح کو لاکھوں سلام۔ طوفانِ الاقصیٰ کا اثر یہ ہوا کہ عرب اور اسلامی ممالک اور تل ابیب کے تعلقات کی معمول پر واپسی میں رخنہ پڑا اور گریٹر اسرائیل کے علاوہ مسجد اقصیٰ کی تباہی کا منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ اس بارے میں مغربِ ایشیا کے امور کے ماہر وحید مردانہ کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایک ناگزیر آپریشن تھا، آنے والے برسوں میں ہم مغربی ایشیا اور کسی حد تک پوری دنیا میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں گے۔
کیا یہ ضروری تھا؟: تسنیم نیوز سے گفتگو میں وحید مردانہ نے طوفان الاقصیٰ کے متعلق کہا کہ سب سے پہلا سوال جو وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آیا طوفان الاقصیٰ آپریشن سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا؟ کیا ان تمام قربانیوں کا کوئی حقیقی جواز تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب اس آپریشن سے پہلے کے حالات میں تلاش کرنا چاہیے، یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت خطے میں حالات مزاحمتی محور کے حق میں تھے یا اس کے خلاف، اور عمومی رجحان کیا دکھائی دے رہا تھا۔
صہیونی رجحانات کا بڑھنا اور صدی کی ڈیل: انہوں نے وضاحت کی کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے خطے کی سیاسی سمت واضح طور پر اسرائیل کے مفاد میں تبدیل ہو رہی تھی، 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طاقت کے عروج پر تھے، وہ پرانی روایات توڑتے ہوئے صدی کی ڈیل منصوبے پر عمل پیرا تھے، ایک ایسا جامع منصوبہ جس میں مغربی کنارے کا اسرائیل یا اردن سے الحاق، غزہ کو نیوم پروجیکٹ کے تحت صحرائے سینا میں ضم کرنا، اور اسلامی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کو معمول پر لانا شامل تھا۔ اسی دوران واشنگٹن نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا: وحید مردانہ کے مطابق اگر یہ عمل جاری رہتا، تو انجام کار اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی مسجد الاقصیٰ کی تباہی پر منتج ہوتی، وہی خطرہ جس سے شہید یحییٰ سنوار نے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ فلسطین کے مکمل زوال اور سقوط پر ختم ہونا تھا۔ انتفاضہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی، کیونکہ مغربی کنارے کے عوام کے ذہنوں پر اسرائیلی اثر بڑھ چکا تھا، اور خود مختار فلسطینی انتظامیہ (PA) نے بھی مزاحمت کو دبا رکھا تھا۔
حماس کے لیے فیصلہ کن لمحہ: انہوں نے کہا کہ حماس کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فلسطین کو ختم ہوتے دیکھتی، یا پھر اقدام کرتی۔ اگر طوفان الاقصیٰ اس وقت نہ ہوتا تو چند ماہ یا سال بعد بہرحال یہ ناگزیر ہو جاتا، کیونکہ بائیڈن کے آنے کے باوجود صدی کی ڈیل ختم نہیں ہوا تھا اور ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔
اسرائیلی حکمتِ عملی: وحید مردانہ کے مطابق اگر حماس انتظار کرتی، تو اسرائیل کی چمن زنی (mowing the grass) یعنی سبز دکھانے کی پالیسی کے تحت ہر دو سال بعد غزہ پر جنگ مسلط ہوتی رہتی۔ اس صورت میں حماس کے لیے کسی اچانک اور چونکا دینے والے ردعمل کا عنصر ختم ہو جاتا۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیشگی اقدام کریں تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ سے پہل کا موقع چھین سکیں۔
سوریہ، لبنان اور یمن کی تبدیلیاں: جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شام اور لبنان کے حالات کو طوفان الاقصیٰ کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شام اور غزہ کے معاملات کو براہِ راست جوڑنا درست نہیں، اگرچہ ان میں اثرات ضرور تھے۔ حزب اللہ کے لیے لبنان کی سلامتی اور محورِ مقاومت کی بقا سب سے اہم تھی۔ اسی تناظر میں سید حسن نصراللہ کی شہادت نے مغربِ ایشیا کو گہرے تغیر سے دوچار کیا۔ مگر مجموعی تصویر کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔
یمن، مزاحمت کی نئی قوت: انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا تغیر یمن کے ابھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ انصاراللہ کی قیادت میں یہ غریب اور تنہا ملک چند سالوں میں ایک فیصلہ کن اور اثر انگیز قوت بن گیا، حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ بات تھی جو کچھ سال پہلے تک محض خواب سمجھی جاتی تھی۔
ایران کا کردار اور استحکام: انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا علاقائی مقام خود کی طاقت سے حاصل کیا، جبکہ اسرائیل نے یہ حیثیت امریکہ، مغرب اور عرب اتحادیوں کی مدد سے پائی۔ فرق یہ ہے کہ ایران کی بنیادیں کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔
مستقبل کا نقشہ، مزاحمت اور علاقائی سیاست: وحید مردانہ کے بقول تاریخ میں ہمیشہ اقوام اور نظریات کی بلندی و زوال جنگوں کے نتیجے میں طے ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں مغربِ ایشیا اور کسی حد تک دنیا میں بڑی تبدیلیاں یقینی ہیں۔ اس جنگ کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے جیت اور ہار کا تعین کریں گے۔ غزہ کی جنگ اس تمام عمل کی کنجی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر غزہ اور حماس برقرار رہتی ہیں، تو محورِ مقاومت نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے بحالی کا کام کرے گا۔ بصورتِ دیگر علاقائی کھیل مزید پیچیدہ ہو جائے گا، کیونکہ اسرائیل اور مزاحمتی قوتوں کو اپنے نئے سیاسی جغرافیے کو مستحکم کرنا ہوگا اور یہ آسان کام نہیں۔ اسرائیل، اگر غالب آتا ہے، تو مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے حتیٰ کہ ترکی جیسے ممالک میں بھی شخصیات کے قتل (targeted assassinations) تک کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف: انہوں نے اختتام پر کہا کہ چونکہ صہیونی حکومت خطے میں جنگوں کے خاتمے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، اس لیے امکان نہیں کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک یعنی ٹرمپ کی موجودگی کے دوران وہ مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی پالیسی سے پیچھے ہٹے گی۔ طوفانِ الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں تھی، یہ ایک فکری و تزویراتی دھماکہ تھا جس نے مغربی ایشیا کے سیاسی، مذہبی اور سفارتی توازن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وحید مردانہ کے مطابق یہ ایک ناگزیر اقدام تھا، ایسا لمحہ جو اگر مؤخر کیا جاتا، تو فلسطین مکمل طور پر ختم ہو جاتا اور اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کی معمول پر واپسی ایک ناقابلِ تلافی حقیقت بن جاتی۔
اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔