Juraat:
2025-06-12@17:14:42 GMT

طاقت اور مقبولیت کا قہر

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

طاقت اور مقبولیت کا قہر

حمیداللہ بھٹی

خطا اولادِ آدم کا وصف ہے مگر جب کسی خطاکار کو طاقت و مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو نسلِ انسانی پرہی قہربن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتاہے۔ زمانہ شاہد ہے مقبولیت حاصل ہوتے ہی گمراہ ہوکر حضرت انسان وہ تباہی و بربادی کرتا ہے کہ داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔انسان ہی انسان کا دشمن بن جاتا ہے مقبولیت کا مطلب تو محبت ہے مگر انسان کو یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا آکر مقبولیت چھین کر خود مقبول نہ ہو جائے انسان کو طاقت مل جائے تو خود کو محفوظ بناتے ہوئے لوگوں کو کچلنے لگتا ہے ۔اِس طاقت و مقبولیت نے دنیا میں وہ قہر ڈھائے ہیں جس کی کوکھ نے جنگوں کو جنم دیا جن کے دوران لاکھوں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ خامیوں و کوتاہیوں سے سیکھناہی دانشمندی ہے مگر دنیاکی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو انسان کادشمن انسان ہی نظر آتا ہے۔ مملکتوں کی آبادی ورقبے میں اضافے سے طاقت و مقبولیت کی قہر ناکی کووسعت ملی مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے ۔فتح کے ہزاروں دعویدارجبکہ شکست لاوارث ہوتی ہے یہ تاریخ کا سبق ہے۔
جدید فرانس کا بانی نپولین بونا پارٹ ایک مقبول اور بہادر آدمی تھا۔ عوام کی محبت کو اُس نے دائمی سمجھ لیا اور کوشش کرنے لگا کہ صرف فرانس ہی کیوں وہ تو سارے یورپ کا شہنشاہ بن سکتا ہے۔ یہ زعم بھی ہو گیا کہ فرانس کی طرح پورے یورپ میں مقبول ہے۔ اسی خود پسندی نے بستیاں اور مملکتیں تاراج کرادیں۔یورپ کی سربراہی حاصل کرنے کے چکر میں لاکھوں مرد وزن قتل کرادیے اور پھر جب انگلینڈ کو مطیع باج گزار بنانے کے سفرکا آغاز کیاتوبڑھتے قدم رُک گئے ۔اِس سفر سے عروج کو زوال نے آگھیرا۔بیلجیئم کے علاقے واٹر لوکے مقام پر شکست ہوئی اور گرفتار ہوکر عمر کے آخری ایام ملک سے دورایک قیدی کی حیثیت سے بسرکیے ۔اِس طرح لوگوں کو قیدی بنانے کے چکر میں خود ہی قیدی بن گیا۔ فرانس نے اُس کی باقیات لاکر پیرس کے مضافات میں ایک مقبرے میں دفن کررکھی ہیں،جہاں راقم نے ہوکامنظر دیکھا عام لوگ تو کُجا سیاحوں کی آمدبھی محدودہے۔ ایک مقبول اور بہترین جنگجو نپولین بوناپارٹ تاریخ کاایساکردار ہے جس کی خوبیوں پر خامیاں حاوی ہیں۔ کاش انسان طاقت و مقبولیت کو قہر بنانے سے گریز کرے۔
جان ایف کینڈی کی طاقت و مقبولیت کازمانہ شاہدہے۔ اُسے بھی یقین ہوگیا کہ دنیا کے لیے ناگزیر ہے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ روس کو براہ راست جوہری جنگ کی دھمکی دے دی ۔یہ ایسی دھمکی تھی جس سے دنیا کی تباہی یقینی تھی لیکن کب طاقت و مقبولیت کا پہیہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف گھومنے لگے؟ یہ انسان نہیں جان پاتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جان ایف کینڈی کو ایسے حالات میں گولی لگی کہ اُس کا سر ایک ناتواں بچے کی مانند اپنی بیوی کی گود میںتھا اور اسی حالت میںدم توڑ دیااورمٹی کی چادر اوڑھ لی توکوئی ہے ایسا دانشمند جوعبرت حاصل کرے ؟مگر تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی حکمران تاریخ سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا تاآنکہ طاقت و مقبولیت چھن جائے ۔
بینجمن نیتن یاہو اسرائیلی وزیرِ اعظم ہے اِسے اپنی مقبولیت بڑھانے کا جنون ہے اُس نے طاقت کے بے جا اظہارکواپنا ہتھیار بنا لیا ہے یہ سفاک شخص انسانوں کے قتل پر فخر کرتا ہے اور جو قتل ہونے سے بچ جائیں اُنھیں بھوک سے مارنے کی کوشش میںہے یہ بے رحم و سفاک شخص اپنے مقاصد کے لیے انسانی خون بہانے پر ذرا شرمسار نہیں لہو لہو غزہ اِس کے جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ رحم جیسے جذبے سے کوسوں دور ہے ۔یہ مرنے والوں کی تعداد پوچھتا ہے اور پھر ایک خون آشام دیو کی طرح مسلم نسل کشی میں دوبارہ مصروف ہوجاتا ہے لیکن کیا اُس کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور تاریخ اُسے اچھے نام سے یادکرے گی؟ناممکن ۔کچھ بھی تو دائمی نہیں جو دنیا میں آیا ہے ایک روز اُسے جانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اچھی یادیں چھوڑی جائیں مگر اسے مسلمانوں کاخون بہانااورمارنا مرغوب ہے۔ کب اِس سے طاقت و اختیار کا ہتھیارکب چھنتا ہے نگاہ منتظرہے۔
شیخ حسینہ واجد مسلم ملک بنگلہ دیش کی تین بار وزیرِ اعظم ر ہیں ۔یہ خود بھی مسلمان تھیں اور ملک کی مقبول ترین خاتون کا اعزازبھی رکھتی تھیں۔ یہ اپنی مقبولیت کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ ایک وقت آیا کہ اُسے اپوزیشن جماعتیں خطرہ محسوس ہونے لگیں جس کاتوڑ گرفتاریاں اورپھانسیاں دیناسمجھ لیاگیا مگرجب اپوزیشن جماعتوں پر پابندیاں لگا کر انتخابی عمل سے ہی باہر کیاجانے لگا تو مخالفانہ تحریک زورپکڑنے لگی ۔اسے پھر بھی عقل نہ آئی ہزاروں افراد کو قتل کرادیا۔ آج عبرت کا نمونہ بنی اِس حال میں بھارتی شہر اگرتلہ میں مقیم ہیں کہ صرف جنونی مودی ہی اُسے دوست تصورکرتاہے۔ بنگلہ دیش میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ اُس کے باپ سے منسوب یادگاریںمٹانے کے ساتھ کرنسی نوٹوں سے تصویر تک ہٹادی گئی ہے۔ اس کے لیے ملک میں واپسی کابظاہر اب کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ مخالفانہ تحریک کے دوران ہزاروں بے گناہوں کاقتل ثابت ہوچکاہے۔ لہٰذا شاید جلاوطنی میں ہی آسودہ خاک ہو ناقسمت ہو۔اگر مقبولیت و طاقت کومثبت مقاصد کے یے استعمال کرتیں تو آج کم از کم انجام کچھ تو بہتر ہوتا۔
بھارت کے نریندرامودی کوکون نہیں جانتا گجرات کے قصاب کے لقب سے معروف اِس شخص کی سیاست مسلم دشمنی ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے ملک سے مسلمانوں ، عیسائیوں،سکھوں،بدھ مت اور نچلی ذاتوں کوختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ انتخاب جیتنے کے لیے مداری کی طرح ہر بار کوئی نیا دائو آزماتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی خامیاں بُھلا کر ہندواکثریت اُسے ووٹ دے دیتی ہے لیکن اِس بار ریاستی انتخابات سے قبل عوام کو کچھ نیا اور منفرد بتانے کی کوشش کی جموں کشمیر کے علاقے پہلگام میںاپنے اِداروں سے سیاحوں پر حملہ کرایا۔ مزید اشتعال انگیزی یہ کہ پاکستان کی فضائی حدودپا مال کرنا شروع کردیں۔ اِس حرکت کے دومقاصد تھے اول ہندوئوں کوباور کرانا کہ وہ مسلمانوں پرحملہ آورہے ۔دوم خطے سے بھارتی بالادستی تسلیم کرانا لیکن دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ فضائی جھڑپ میں واضح شکست سے اب نہ صرف مودی کامزید عرصہ اقتدارمیں رہنا دشوار ہے بلکہ ملک ٹوٹنے کابھی خدشہ ہے۔ اگر یہ جنونی شخص بھلائی کے کام کرتا نفرت پھیلانے کی بجائے ملک میں افہام وتفہیم کی فضا بناتاتو ملک میں ایسے حالات ہرگز نہ ہوتے ۔ایک شکست سے اُس کی مخفی خامیاں بھی اُجاگر ہوئی ہیں اور اب یہ جنونی شخص تاریخ کے اوراق کا ایک بدنما داغ بننے کے قریب ہے۔
مگر خطااولادِ آدم کاوصف ہے اور جب کسی خطاکار کو طاقت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے توکسی اور پر نہیں، نسل انسانی پر ہی قہر بن کر ٹوٹتااور تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: طاقت و مقبولیت مقبولیت کا اور پھر کے لیے ہے اور

پڑھیں:

امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ

جون کا مہینہ بھارت میں سکھوں اور کشمیری مسلمانوں کے دو بدترین سانحات کی یاد دلاتا ہے۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر اور سری نگر کے نواحی علاقے چھوٹا بازار میں بھارتی سیکورٹی اداروں نے نہتے شہریوں کا بیدردی سے قتل عام کیا۔ دونوں سانحات کے متاثرہ فریقین آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔
سانحہ گولڈن ٹیمپل عشروں پر محیط ریاستی جبر کی داستان کا اہم باب ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد، نہرو تاراسنگھ مفاہمت کے تحت جب سکھ برادری نے اپنی لسانی، ثقافتی اور مذہبی شناخت کے تحفظ کے لیے پنجابی صوبہ کے قیام کا مطالبہ کیا تو بھارت نے اس مطالبے کو علیحدگی پسندی، غداری اور خطرہ بنا کر پیش کیا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو نے 1950 کی دہائی میں اکالی رہنما ماسٹر تارا سنگھ کو یقین دلایا تھا کہ ریاستوں کی لسانی بنیاد پر تشکیل کے دوران پنجابی زبان کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔ مگر جب 1956 ء کا اسٹیٹس ری آرگنائزیشن ایکٹ منظور ہوا، تو پنجابی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ تامل، تیلگو، بنگالی کو علیحدہ ریاستیں ملیں، مگر سکھوں کو دھوکہ دیا گیا۔
پنجابی صوبہ کے مطالبے کو مذہبی انتہا پسندی کا رنگ دے کر بدنام کیا گیا۔ مرارجی دیسائی جیسے رہنمائوں نے سکھوں پر مذہبی ریاست قائم کرنے کا الزام لگایا۔ 1951 ء اور 1961 ء کی مردم شماری میں ریاستی مداخلت سے پنجابی زبان کے ساتھ کھلی زیادتی کی گئی۔ سرکاری دبائو کے تحت ہندی کو مادری زبان لکھوانے پر مجبور کیا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ پنجابی زبان کو اکثریت حاصل نہیں۔
صرف 1960 ء کی تحریک میں 57,000 سے زائد سکھوں کو گرفتار کیا گیا۔ اندرا گاندھی کے دور میں 1966 ء میں پنجابی صوبہ تو قائم ہوا، مگر اس کے ساتھ ایسی شرائط لگائی گئیں جنہوں نے سکھوں کے اعتماد کو مکمل طور پر چکناچور کر دیا۔ ہریانہ کو پنجاب سے الگ کر دیا گیا ۔
کئی پنجابی بولنے والے علاقے ہماچل پردیش کو دے دیے گئے۔اکال تخت سے خالصتان کے حق میں 41سال بعد سچ کی للکار پھر بلند ہوئی ہے- گولڈن ٹیمپل میں خالصتان زندہ باد کے نعرے دوبارہ گونجنے لگے ہیں۔
آپریشن بلیو اسٹار کی 41ویں برسی پر سکھوں کا پیغام واضح ہے؛ اب خاموشی نہیں، مزاحمت ہوگی۔ یکم تا 10جون تک ’’یادِ مظلومیت‘‘ کا عشرہ منایا جا رہا ہے۔ دل خالصہ نے امرتسر میں مارچ اور ہڑتال کی کال دے کر ثابت کر دیا کہ خالصتان کا مطالبہ صرف جذبہ نہیں، بلکہ زندہ تحریک ہے۔
سکھوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم مشہور زمانہ تنظیم دل خالصہ نے ’’نسل کشی یادگاری مارچ‘‘ منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ مارچ گوردوارہ برج پھولا سنگھ سے اکال تخت تک نکالا گیا۔ جبکہ چھ جون کو بھارتی پنجاب کے اکثر علاقوں میں مکمل ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ پنجاب میں خالصتان کے حامی کارکنان اور تنظیموں نے گولڈن ٹیمپل قتل عام کی ۔ بی بی سی اردو نے سات جون کو شایع کردہ چشم کشا رپورٹ میں آپریشن بلیو اسٹار میں مارے جانے والے بے گناہ سکھوں کی لاشوں کو توہین آمیز طریقے سے نذر آتش کرنے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
کیول کمار امرتسر میونسپل کارپوریشن کے سابق صفائی اہلکار ہیں، جو آپریشن کے بعد لاشیں اٹھانے پر مامور کیے گئے۔ان کے مطابق لاشیں بازاروں، گلیوں، لنگر ہال اور دربار صاحب کے اندر تک بکھری ہوئی تھیں، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ لاشوں کو جانوروں کی طرح کچرے کی ٹرالیوں میں بھر کر لے جایا گیا اور سرکاری عملے کو شراب پلا کر یہ کام کروایا گیا۔چھوٹا بازار قتلِ عام کی تفصیلات بھی بہت دلخراش ہیں۔
11 جون 1991ء کو سرینگر، مقبوضہ جموں و کشمیر کے چھوٹا بازار میں بھارتی فورسز نے نہتے کشمیریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس میں 32معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، شہید ہوئے۔ 34سال گزرنے کے باوجود متاثرین کو انصاف نہیں مل پایا۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ ریاست میں 30 سے زائد منظم حملوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کو شہید کیا۔
چھوٹا بازار جیسے قتلِ عام کا مقصد کشمیریوں میں خوف پھیلانا ہے۔ بی جے پی کی شدت پسند حکومت نے سکھوں، کشمیری مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے لئے بھارت میں زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عالمی برادری کو اس ریاستی دہشت گردی اور منظم شدت پسندی کے خلاف راست اقدامات کرنے ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کسی بھی حملے کا پہلے سے کہیں زیادہ طاقت سے بھرپور جواب دیا جائے گا، کمانڈر حسین سلامی
  • بھارت کی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی ایک اور کوشش؛ میزائل تجربے کی تیاری
  • ایران کے جوہری طاقت بننے کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گا، صدر ٹرمپ
  • پنجاب حکومت کا بجٹ کب پیش ہوگا؟ تاریخ تبدیل کر دی گئی
  • ایران کا مسئلہ طاقت نہیں بات چیت سے حل کرنا چاہتاہوں: امریکی صدر
  • عمر عبداللہ اپنی طاقت کا استعمال عوامی مفاد کیلئے کیوں نہیں کر رہے ہیں، محبوبہ مفتی
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی نئی تاریخ سامنے آگئی
  • ایتھیل کیٹرہام کی طویل ترین عمر کا راز
  • امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ