چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اضافہ قابل نظرانداز، شرمیلا فاروقی
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
لاہور:
پیپلزپارٹی کی شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اضافہ قابل نظرانداز ہے۔
انھوں نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام کل تک میں گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،عام آدمی کی کھانے پینے کیلیے قوت خرید نہیں رہی، حکومت ایک طرف کلین انرجی کو فروغ دیناچاہتی ہے دوسری طرف سولرپینلز پر ٹیکس لگا دیے، ارکان اسمبلی کو ٹیکس کٹوتی کے بعدتنخواہ ملتی ہے۔
تحریک انصاف کے ترجمان نیازاللہ نیازی نے کہا کہ عمران خان قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے ، پولی گرافک ٹیسٹ کے حوالے سے حکومت کے ارادے کا پتہ ہے،فارم 47 والے اکٹھے ہوگئے، عمران صنعتکار ہے نہ زمیندار اس نے کسان کو ریلیف دیا، کرونا کے دوران بھی ملک چلایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلی علی امین گنڈا پورکے بیان کی حمایت نہیں کرتا کہ کوئی بھی تحریک اسلحے کی بنیاد پرچلائی جائے،ججوں کی تنخواہ تین، چارلاکھ روپے ہونی چاہیے، اس میں گزارہ ہوسکتا ہے۔
ٹیکس ماہر حافظ ادریس نے کہاکہ موجودہ بجٹ سے کاروبار بڑھے کا امکان نہیں ہے، یہ ملا جلا بجٹ ہے جس میںکچھ ریلیف جبکہ چار،پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے جو اکٹھے کیسے ہوں گے؟، تنخواہ داروں پرٹیکس میں کمی کی گئی، نان فائلرزپر پابندی اچھا اقدام ہے، آن لائن ڈیجیٹل بزنس پرٹیکس لگادیاگیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے،ایک ہزار ارب روپے کا ابھی بھی خسارہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح کیا ہے کہ فی الحال پارٹی اور وفاقی حکومت یا عسکری قیادت کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات یا رابطے نہیں ہو رہے۔
میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر علی خان نے مذاکرات سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ملک کے سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے بجائے مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ 2024 میں جب پارٹی نے الیکشن مینڈیٹ چُرائے جانے کا مؤقف اپنایاتو چیئرمین عمران خان نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم بات چیت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اگر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کوئی تجویز لائیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک نئی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی، مگر حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، ہم نے حکومت سے ملاقات کے لیے دو ہفتے انتظار کیا لیکن انہوں نے سنجیدگی نہیں دکھائی، اس لیے ہم فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنا نہیں چاہتے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان کی جماعت سیاسی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہی جمہوریت، پارلیمنٹ اور ملکی استحکام کے لیے بہتر راستہ تھا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے موقع ضائع کیا۔
خیبر پختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں سے متعلق گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر کئی آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں، جن میں جنوری، جولائی اور ستمبر کی کانفرنسیں شامل تھیں، انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کا ذکر ہماری پریس ریلیز میں موجود ہے، انہیں سیاسی رنگ دینا یا عام شہریوں کو نقصان پہنچانا کسی صورت درست نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے آپریشنز کے باعث بے گھر ہونے والے افراد آج بھی اپنے گھروں کی تعمیر مکمل نہیں کر سکے، اس لیے ایسے اقدامات انتہائی احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔