data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اذوالحج کا دوسرا عشرہ ایک ایسی عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے جس نے اپنے کردار وعمل سے تاریخ کے اوراق پر ایسے نقوش ثبت کیے جو قیامت کی صبح تک کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان غنیؓ شرم وحیا اور جود وسخا کے اعتبار سے غیر معمولی حیثیت کے حامل تھے اور آپؓ نے جس انداز سے اسلام کی خدمت کی‘ وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ اُن سابقون الاولون صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو سننے کے بعد بلاجھجھک اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد مسلسل دین پر عمل پیرا رہے اور اس کی خدمت کے لیے وقف رہے۔ آپؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے دو دفعہ ہجرت کی۔ ایک ہجرت آپؓ نے مکہ سے حبشہ کی طرف کی اور دوسری ہجرت آپؓ نے حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی۔ آپؓ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کے عقد میں نبی کریمؐ کی دو صاحبزادیاں آئیں‘ جس کی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عثمان غنیؓ نے ہمیشہ نبی کریمؐ کی اتباع اور خدمت میں پیش قدمی کی جس کی وجہ سے رسول کریمؐ نے آپؓ کو متعدد مرتبہ جنت کی بشارت دی۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ ایک باغ (بئر اریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازے پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ وہ ابوبکر صدیقؓ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو۔ وہ عمر فاروقؓ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمؐ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت سنا دو۔ وہ عثمان غنیؓ تھے۔
صحیح بخاری میں سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپؐ کے ساتھ ابوبکر‘ عمر اور عثمانؓ بھی تھے تو احد پہاڑ لرزنے لگا۔ آپؐ نے اس پر فرمایا: احد ٹھہر جا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ نبیؐ نے اسے اپنے پائوں سے مارا بھی تھا اور فرمایا: تجھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔
سنن ابو دائود میں حدیث ہے کہ سیدنا سعید بن زیدؓ کھڑے ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولؐ سے سنا ہے‘ آپؐ فرماتے تھے: ’’دس اشخاص جنتی ہیں۔ نبی کریمؐ جنت میں ہیں۔ ابوبکرؓ جنت میں ہیں۔ عمرؓ جنت میں ہیں۔ عثمانؓ جنت میں ہیں۔ علیؓ جنت میں ہیں۔ طلحہؓ جنت میں ہیں۔ زبیرؓ بن عوام جنت میں ہیں۔ سعدؓ بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں‘‘۔ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو وہ خاموش ہو رہے۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ہے سعید بن زید (یعنی وہ خود)۔
سیدنا عثمان غنیؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال ومتاع کی نعمت سے خوب نواز رکھا تھا اور آپؓ نے ہمیشہ اپنے مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور اہلِ اسلام کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔ مسلمانوں کو جب پانی پینے کی ضرورت تھی تو آپؓ نے اپنے سرمائے کے ذریعے بئرِ رُومہ کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ اسی طرح مسجد نبوی کی توسیع میں بھی آپؓ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپؓ نے غزوہِ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی اپنے مال کے ذریعے بھرپور معاونت کی۔ سیدنا عثمان غنیؓ اپنی ان خدمات جلیلہ کی بنیاد پر صحابہ کرامؓ کی نگاہوں میں انتہائی معتبر اور معزز تھے۔ احادیث مبارکہ میں آپؓ کے مقام کو بڑے احسن طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ کے زمانے ہی میں جب ہمیں صحابہ کرام کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفانؓ کو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ میں سیدنا عثمان غنیؓ کو دین کی خدمت کے شرف سے بہرہ ور کیا وہیں سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں بھی دین کی خدمت کے لیے آپ وقف رہے۔ آپؓ نے دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ نبی کریمؐ کے اہلِ خانہ اور آپؐ کی ازواجِ مطہرات کی خبری گیری کو بھی جاری رکھا۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریمؐ کی ازواج کو حج کے لیے بھیجا تھا اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوفؓ کو بھیجا تھا۔
حضرات صدیقؓ و فاروقؓ کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو مسندِ خلافت عطا فرمائی۔ سیدنا عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں مملکت اسلامیہ کے رقبے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ آپؓ کا ایک دینی کارنامہ یہ ہے کہ آپؓ نے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرمایا۔ اپنی خلافت کے دور میں بھی آپؓ اہلِ اسلام کی خدمت کے لیے پوری طرح وقف رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں آپؓ کو بہترین زندگی عطا فرمائی وہیں آپؓ کو شہادت کے منصب جلیلہ پر بھی سرفراز فرمایا اور نبی پاک سیدنا محمد کریمؐ کے شہر مبارک میں آپؓ ایک شہید کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؓ کی کسر نفسی اور عاجزی کا عالم یہ ہے کہ جب باغیوں نے آپؓ کا محاصرہ کیا اور آپ کو نماز کی امامت سے روک دیا گیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کیا باغیوں کی امامت میں نماز ادا کرنا جائز ہے؟ اس پر آپؓ نے مسلمانوں کو باغیوں کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں عبیداللہؓ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ وہ خود سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس گئے‘ جبکہ باغیوں نے ان کے گھر کو گھیر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں۔ سیدنا عثمانؓ نے جواب دیا: لوگ جو کام کرتے ہیں نماز ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے‘ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔ سیدنا عثمان غنیؓ کی شخصیت اور شہادت کی عظمت اس انداز سے واضح ہوتی ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیا‘ آپؓ اس وقت بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت میں مصروف تھے۔
سیدنا عثمان غنیؓ اپنی شرم وحیا‘ اپنی سخاوت وفیاضی اور اپنی بے پناہ خدمات کی وجہ سے اہلِ اسلام کے دلوں کی دھڑکن اور آنکھوں کے تارے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ آپؓ کی خدماتِ جلیلہ اور سیرت کے سنہرے اور اجلے نقوش سے استفادہ کرتے رہیں گے اور بحیثیت حکمران آپ نے جس ایثار کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب رہے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سیرتِ عثمان غنیؓ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی خدمت کے لیے فرمایا کہ ا جنت میں ہیں ہے کہ نبی اسلام کی کے ساتھ اور ا پ کے بعد جنت کی کہ میں
پڑھیں:
کچورا کے بزرگ عالم کی رخصتی اور ایک تعزیتی روداد
اسلام ٹائمز: شیخ حسین نجفی کی پوری زندگی دینِ مبین کی خدمت مکتبِ اہلِبیت (ع) کی تبلیغ اور ملتِ تشیع کی رہنمائی میں گزری۔ انکا مزاج نرم اور عمل متقیانہ تھا۔ علمائے کرام نے انکی علمی، دینی اور ملی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انکی سادگی، اخلاص اور دین سے محبت نے انہیں لوگوں کے دلوں میں زندہ کر دیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کچورا کی فضا میں خاموشی کی چادر تان دی گئی ہو، لیکن اس خاموشی میں بھی ایک پیغام گونج رہا تھا، وہ چراغ جو بجھا ہے، اسکی لو اب سینکڑوں دلوں میں جلتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ شیخ حسین نجفی مرحوم کو جوارِ معصومین علیہم السلام میں بلند مقام عطا فرمائے اور انکے اہلِخانہ بالخصوص علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی اور انکے برادران کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ تحریر: آغا زمانی
کچورا وہ وادی ہے، جو اپنے سکون و اخلاص کے مرکز ہونے پر فخر کرتی ہے، ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئی۔ 31 مئی 2025ء کا دن نہ صرف ایک گھرانے بلکہ پوری ملت کے لیے سوگ کا پیغام لایا۔ علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی جو انجمن امامیہ کچورا کے صدر اور راہیانِ نور کچورا کے سرپرست اعلیٰ ہیں، ان کے والد بزرگوار، عالمِ باعمل شیخ حسین نجفی اس دارِ فانی کو چھوڑ کر ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ یکم جون اتوار کی صبح سورج آہستگی سے پہاڑوں کے پیچھے سے جھانک رہا تھا، لیکن امام بارگاہ کچورا کے صحن میں چہرے غم سے جھکے ہوئے تھے۔ ہر آنکھ اشکبار، ہر دل افسردہ تھا۔ جنازہ اٹھایا گیا تو وہ فقط ایک پیکر نہیں ایک کردار، ایک علمی و دینی روایت کو کاندھوں پر لیے جا رہا تھا۔ شیخ حسین نجفی کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا جمِ غفیر بتا رہا تھا کہ یہ شخصیت صرف گھرانے کی نہیں ایک ملت کی تھی۔
گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور دیگر اعلیٰ شخصیات نے تعزیتی پیغامات ارسال کیے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے مبشر علی خان نے تعزیتی پیغام پہنچایا۔ انجمن امامیہ بلتستان کے نائب صدر شیخ زاہد حسین زاہدی، سابق چیف جسٹس اپیلیٹ کورٹ جی بی وزیر شکیل، ممبر جی بی اسمبلی وزیر سلیم، سابق اسپیکر فدا محمد ناشاد، مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صدر مجاہد ملت آغا علی رضوی، سیاسی شخصیت عمران ندیم، ڈی آئی جی رسول صاحب، کراچی سے علامہ شیخ ایوب صابری، علامہ سید صادق شاہ رضوی، وزیر تعلیم گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا، شیخ فدا حسین عابدی و علمائے شگر کا وفد۔
تحریک انصاف کے متحرک رہنماء تقی اخونزادہ، سینیئر صحافی نثار عباس کے ہمراہ حسین آباد و سدپارہ سے وفد، بشو سے شیخ شمشیر مبلغی، پنجاب دینہ سے سید حسنین نقوی اپنے وفد کے ہمراہ، ایس پی حسن صاحب، میرواعظ وادئ گول جناب سید محمد علی شاہ، جامعہ العباس کے پرنسپل شیخ محمد طہٰ وفد کے ہمراہ، چیف انجینئر وزیر رسول، معروف بلڈر یعقوب شہباز، معروف ثناء خوان احمد رضا ناصری، معروف کاروباری شخصیت وزیر عابد، بلتی کے معروف شاعر اخوند محمد حسین حکیم، مرکزی علمائے کریس و امام جمعہ کریس، گلگت سے تشریف لائے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنماء الیاس صدیقی، غلام عباس، عارف قنبری، عمران حسین، ساجد حسین اور وفد کے معززین۔
ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء اور ممبر جی بی اسمبلی شیخ اکبر رجائی، ڈی ایس پی سٹی غلام نبی، سابق اسپیکر و قائم مقام گورنر و وزیر تعمیرات سید امجد علی زیدی، علامہ ڈاکٹر یونس، فرزند قائد بلتستان (علامہ شیخ غلام محمد الغروی) علامہ مرزا یوسف حسین امام جمعہ مسجد نور ایمان کراچی، علامہ آغا سید طہٰ شگر، آغا سید مظاہر امام جمعہ حسین آباد سکردو و نوربخشیہ امامیہ کے رہنماء و دیگر معززین، مرکز اہلحدیث سکردو کے سربراہ ڈاکٹر محمد علی جوہر اور دیگر معززین کی موجودگی بتا رہی تھی کہ مرحوم فقط ایک فرد نہیں، ایک روشن قندیل تھے۔
داعی اتحاد بین المسلمین حضرت علامہ شیخ محمد حسن جعفری دام ظلہ کی قیادت میں علماء کا قافلہ فاتحہ خوانی کے لیے پہنچا۔ ان کے ساتھ شیخ جواد حافظی، شیخ اکمل طاہری، آغا سید احمد حسینی، سید قمر عباس، شیخ ذوالفقار انصاری، ماسٹر حاجی مسلم حسین اور دیگر علمائے کرام موجود تھے۔ اس قافلے کی موجودگی علم، تقویٰ، اخلاص اور تعلق کی گواہی دے رہی تھی۔ اس موقع پر علامہ شیخ حسن جعفری نے اپنے تاثرات میں فرمایا:،"شیخ حسین نجفی صرف میرے دوست یا ہم سفر نہ تھے، وہ ایک روحانی رفیق تھے۔ ان کے ساتھ علمی سفر اور دینی خدمات کی یادیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ ان کی رحلت میرے لیے ذاتی اور ملی نقصان ہے۔"
گذشتہ روز راقم نے بھی کچورا میں علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی اور ان کے برادران سے تعزیت کی۔ انجمن راہیانِ نور کے نوجوان بالخصوص جناب امجد عزادار اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچورا آنے والے مہمانوں کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ کوئی پیدل آ رہا تھا تو کوئی لفٹ لے کر۔ یہ جذبہ بتا رہا تھا کہ ایک مردِ مومن کا رخصت ہونا ایک عہد کی روانگی ہوتی ہے اور اسے رخصت کرنے والے فقط سوگوار نہیں محافظِ میراث بھی ہوتے ہیں۔ شیخ حسین نجفی کی پوری زندگی دینِ مبین کی خدمت مکتبِ اہلِ بیت (ع) کی تبلیغ اور ملتِ تشیع کی رہنمائی میں گزری۔ ان کا مزاج نرم اور عمل متقیانہ تھا۔
علمائے کرام نے ان کی علمی، دینی اور ملی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کی سادگی، اخلاص اور دین سے محبت نے انہیں لوگوں کے دلوں میں زندہ کر دیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کچورا کی فضا میں خاموشی کی چادر تان دی گئی ہو، لیکن اس خاموشی میں بھی ایک پیغام گونج رہا تھا، وہ چراغ جو بجھا ہے، اس کی لو اب سینکڑوں دلوں میں جلتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ شیخ حسین نجفی مرحوم کو جوارِ معصومین علیہم السلام میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کے اہلِ خانہ بالخصوص علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی اور ان کے برادران کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین (جمعۃ المبارک: 13جون 2025ء/16ذی الحجہ 1446ھ)